جھوٹ
جھوٹ
دراصل سچ کا متضاد ہے اور جھوٹ کے اصل معنی ہیں کسی کو جان بوجھ کر دھوکا دینا اور
غلط بیانی سے کام لینا ہے۔ کسی بات کو غلط انداز میں بیان کرنا بھی جھوٹ کے زمرے میں
آتا ہے۔ سچ میں کوئی شخص صحیح بات بیان کررہا ہوتا ہے لیکن جھوٹ میں سچ کے بالکل اسکے
متضاد یعنی اُلٹ بات یعنی غلط بات بیان کررہا ہوتا ہے۔ جھوٹ کا ایک افسوسناک پہلو یہ
بھی ہے کہ اس میں سچائی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بات کو مکرو فریب سے اِس
طرح بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوسرے لوگ اس بات سے دھوکہ کھا جائیں اور اُس
جھوٹ کو سچ سمھجھنے لگ جائیں۔ جھوٹ بعض صورتوں میں منافقت کے زمرے میں بھی آتا ہے اور
اکثر و بیشتر جھوٹے شخص کو منافق سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ بعض اوقات جھوٹا شخص اپنی
مطلب براری کے لئے دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے جو لیکن اپنے مقصد اور مطلب کو اپنے دل
کی گہرائی میں چھپا کر رکھتا ہے اور جھوٹ کا یہ پہلو منافقت میں شمار ہوتا ہے دراصل
جھوٹ اور منافقت میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ سچ میں منافقت نہیں پائی جاتی بلکہ
سچ منافقت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔
دُنیا میں جھوٹ کا آغاز
دُنیا
میں جھوٹ کا آغاز کب ہوا اور کون سا پہلا انسان تھا جس نے جھوٹ بولا اِس سلسلے میں
تاریخ بالکل خاموش ہے بعض لوگوں کا نکتہ نظر ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام
کو اور اماں حوا کو بہکایا کہ تم فلاں درخت کا پھل کھا لو گے تو تمھاری آنکھیں روشن ہو
جائیں گی اور تم سب چیزوں کو دیکھ سکو گے تو شیطان کا بس حضرت آدم علیہ السلام پر
تو نہ چلا لیکن اُس نے اماں حوا کے دِل میں وسوسا ڈالا کہ اس درخت (جس کے قیریب بھی
جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا) کے پھل کے کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تم دونوں
کی آنکھیں کُھل جائیں گئیں اور تم دونوں سب کچھ دیکھ سکو گے۔ شیطان کی اِس بات کو سن
کر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ اِس درخت کے پھل کھانے سے کچھ نہیں
ہوگا بلکہ ہماری آنکھیں کُھل جائیں گی اور ہم سب کچھ دیکھ سکیں گے۔ دراصل اماں حوا
نے اللہ تعا لیٰ کے اِس حکم کو نظر انداز کردیا کہ درخت کے قریب نہ جانا اور اُس کا
پھل نہ کھانا ورنہ گمراہ ہوجائو گے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اماں حوا نے حضرت آدم علیہ
السلام سے غلط بیانی سے کام لیا اور ان کے خیال میں یہ بات جھوٹ کے زمرے میں شمار ہوتی
ہے لیکن کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہے اُن کی رائے کے مطابق اماں حوا اُس وقت اللہ کے
حکم کو بھول گئیں اور انہوں نے شیطان کی بات کو سچ سمجھا اوراُس کی بات حضرت آ دم علیہ
السللام کو بیان کردی اُن افراد کی رائے کے مطابق یہ جھوٹ نہیں تھا یہ ترک اولیٰ تھا
یعنی غلطی تھی اور اور یہ ترکِ اولیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے بھی سرزد ہوا جس کی انہوں
نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔ دونوں نکتہ نظر قارئین
کے سامنے ہیں وہ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا نقطہ نظر صحیح ہے اور کونسا غلط ۔
پہلا جھوٹ کب بولا گیا تاریخ اِس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔
جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے؟
لوگ
جھوٹ کیوں بولتے ہیں اس کی کچھ وجوہات ہیں مثلا جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام
کو چھپانے کے لئے بولتے ہیں کیونکہ اُن کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُن کا غلط کام ظاہر ہوگیا
اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں اُن کی عزت نہیں رہے گی۔
بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لئے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور مثال کے طور
پر اُن کے پاس دولت نہیں ہوتی، گاڑی نہیں ہوتی، بنگلہ نہیں ہوتا اور بنک بیلنس نہیں
ہوتا لیکن لوگ اپنے دوستوں یاروں اور اپنی گرل فرینڈ کو متاثر کرنے کے لئے جھوٹ بولتے
ہیں کہ اُن کے پاس دولت، گاڑی، بنگلہ اور بنک بیلنس سب کچھ موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ
اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں اِس قسم کے جھوٹ کی لوگوں
کوعادت پڑ جاتی ہے اور بے اختیار اِس قسم کا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی عادت
سے مجبور ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس قسم کا جھوٹ اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے
جیسا کہ سیاسی جلسوں میں حاضرین کی تعداد کو کم یا زیادہ کرکے بتایا جاتا ہے۔ اس کا
سب سے افسوسناک پہلویہ ہے کہ سب سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جھوٹ بولا جارہا ہے لیکن کسی
کی جرات نہیں ہوتی کہ کوئی کپھلے لفظوں میں کہے کہ اللہ کے بندوں جھوٹ نہ بولو۔ جھوٹ
کی اور بھی بے شمار قسمیں ہیں جتنا سوچتے جائیں اتنا ہی جھوٹ ملتا جائے گا۔
جھوٹ کے بارے میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کا واقع
اللہ
تعالیٰ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں
ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت
سی برائیاں ہیں جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا آپ مجھے فرمائیے کہ میں کوئی ایک برائی چھوڑ
دوں تو وہ میں چھوڑ دوں گا آپ نے اُس شخص سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اُس شخص
نے وعدہ کرلیا اور جھوٹ بولنا چھوڑدیا تو اِس کے جھوٹ بولنے کے چھوڑنے کے سبب اُس کی تمام
برائیاں چُھٹ گئیں۔ اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنا کتنی بڑی برائی ہے۔
جھوٹ کو سب برا سمجھتے ہیں لیکن بولتے ہیں
جھوٹ
کو سب برا سمجھتے ہیں لیکن افسوسناک صورتِحال یہ ہے کہ جھوٹ سب بولتے ہیں اور جو دلچسپ
بات یہ ہے کہ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ بھی جھوٹ کو برا سمجھتے ہیں ذرا سب دل پر ہاتھ رکھ
کر اللہ تعالیٰ کو یاد کریں اور ایک لمحے کے لئے سوچیں کیا وہ جھوٹ نہیں بولتے آج کا
سب سے کڑوا سچ یہی ہے۔
No comments:
Post a Comment