Sunday 31 May 2015

خٰیبر پختونخواہ کے خونی بلدیاتی الیکشن

خٰیبر پختونخواہ کے 

خونی بلدیاتی الیکشن

خیبر پختونخواہ میں سپریم کورٹ کے آڈر پر خدا خدا کرکے بلدیاتی الیکشن ہوگئے لیکن یہ الیکشن جو کہ بہت ہی پرامن ہونے کی توقع تھی۔  خیبر پختونخواہ میں پولیس کے نظام میں تبدیلی کے بعد یہ امید تھی کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور انتظامیہ ان الیکشن کو پُرامن کرانے میں کامیاب ہوگی اور پُرامن الیکشن کے انعقاد کا کریڈیٹ لے گی لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت کی ساری امیدوں پر پانی اُس وقت پھر گیا جب اِن الیکشن کو کچھ عناصر کی طرف سے متنازعہ بنانے کے لئے ایک الگ پلان ترتیب دیا گیا اور الیکشن کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مختلف علاقوں میں ھنگامہ آرائی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کرکے کے متنازعہ بنا دیا گیا اور یہ عناصر اپنی اس کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نظر آئے کیونکہ خیبر پختونخواہ کے اس بلدیاتی الیکشن میں عوام میں برداشت کی قوت میں کمی کا بھرپور فائدہ اُٹھایا گیا اور مختلف علاقوں میں ذرا سی بھی ہونے والی بات پر لوگوں کے جذبات کو ابھارا گیا اور جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں بات گالم گلوچ سے شروع کی گئی اور پھر ہاتھا پائی کی نوبت سے ہوتی ہوئی ڈنڈوں پر پہنچی اور پھر ڈنڈوں سے بات بڑھ کر فائرنگ پر آگئی اور پورے  میڈیا پر ھنگاموں کی سارا دن مختلف خبریں نشر ہوتی رہیں۔ میڈیا کی کیمرہ کی آنکھ نے جو کچھ دیکھا وہ ہی دکھایا لیکن پردہ سکرین کے پیچھے ہونے والی کارروائیاں اتنے منظم انداز میں کی جارہی تھیں کہ عام انسان کی سوچ شاید اس تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ جیسے ہی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی ویسے ہی دھاندلی کا شور بھی مچنا شروع ہوگیا اور کیونکہ وہ عناصر جن کو اپنی ہار نظر آرہی تھی اُن کا پلان ہی یہی تھا کہ الیکشن کسی بھی طور پر پرُ امن نہ ہوں اگر الیکشن کا پُر امن انعقاد ہوجاتا تو پھر ہارنے والوں کے پاس کوئی جواز نہ رہ جاتا کہ اُن کو شکست ہوئی ہے اُن کی کامیابی کا سارا 
دارومدار اسی بات پر تھا کہ ہنگامہ ہو اور پولنگ کا عمل رک جائے اور اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حآصل ہوسکے ۔ 
 ہنگاموں کی وجہ سے مختلف پولنگ سٹیشنوں پر  پولنگ کا عمل رک گیا پولنگ کے عمل کے رکنے کی وجہ سے جن لوگوں کو اس کا فائدہ ہوا اُس کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔  ان ہنگاموں کی وجہ سے اور فائرنگ کے واقعات میں دس کے قریب قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور سو سے زائد افراد زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی ذمہ داری االیکشن کمیشن پرڈال دی اگر دیکھا جائے تو الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے لیکن امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیئے تھا کہ الیکشن کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی تاکہ ذمہ داری خیبر پختونخواہ کی ڈال دی جائے گی اور انجام کار ایسا ہی ہوا خیبر پختونخواہ کی حکومت کو چاہیئے تھا کہ الیکشن سے پہلے الیکشن میں حصہ لینے تمام جماعتوں کی ایک میتنگ بلاتی اور الیکشن کا لائحہ عمل طے کیا جاتا تاکہ اگر کسی طرف سے ہنگامہ آرائی کی کوشش ہوتی تو حکومت کو پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کی وجہ سے حالات کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت نے یا تو انتہائی سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنے والے خطرات کی بو نہیں سونگھی جو کہ سر پر منڈلا رہا تھا کیونکہ اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو ریت کے نیچے دبے ہوئے خطرات کو بھانپ کر پہلے سے اقدامات کرے اور اُن کا توڑ کرے لیکن شاید خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اپنے اوپر حد سے زیادہ اعتماد تھا جس کی وجہ انہوں نے تمام پارٹیوں کا اجلاس بلا کر الیکشن کا لائحہ عمل طے نہیں کیا جس کی وجہ سے جب الیکشن کے دن ہنگاموں کا جن بوتل سے باہرآیا تو خیبر پختون خواہ کی حکومت حالات کو کنٹرول نہ کرسکی۔  ادھر دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی سات رنگ کے بیلٹ پیپر بنا کر ووٹ کاسٹ کرنے کا ایسا پیچیدہ نظام بنایا جس کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا خیبر پختونخواہ میں لوگ اتنے زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے ووٹ کاسٹ کرنے کے نظام کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے اور ووٹرز کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن کوئی بہتر طریقہ اپناتی جس سے ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرنے میں آسانی ہوتی لیکن ایسا نہ ہوسکا
الیکشن میں ووٹنگ کے آغاز کے ساتھ ہی دھاندلی کا شور اُٹھنا شروع ہوا انتہائی معذرت کے ساتھ اس الیکشن میں یہ نظر آیا کہ دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں جس کا جہاں زور چلا اس نے دل کھول کر دھاندلی کی اور ایک طرف دھاندلی کی دوسری طرف ٹی وی چینلز پر آکر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے اندر ایمانداری کی ہلکی سی بھی رمق نظر نہیں آتی ہے ہر کوئی ایک ہی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے ایک طرف ہم خود جہاں جس کسی کا بس چلتا ہے دھاندلی کرتے ہیں اور پھر سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پھر جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں ایک دوسرے کی مخالف پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتی ہیں لیکن خود یہ نہیں سوچتیں کہ جب ان کا موقع ہوتا ہے تو دھاندلی کا یہ گندہ کام خود بھی دھڑلے سے سرانجام دے رہی ہوتیں ہیں اور اس طرح دھاندلی کا یہ سائیکل چلتا رہتا ہے اور پھر نئے الیکشن کی تیاری اور پھر نئی دھاندلی کی پلاننگ، ہنگاموں کی منصوبہ بندی کوئی یہ نہیں سوچتا کسی کا لخت جگر ان ہنگاموں کی نظر ہوگیا اس کے گھر والوں پر کیا گزر رہی ہوگی، کوئی ہمیشہ کے لئے ہنگاموں کی وجہ سے اپاہج ہوکربیٹھ جاتا ہے کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہر طرف نفسانفسی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ ہر سچائی دفن، ہر اصول دفن، ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ سچ کو تلاش کرنا نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ سب کچھ ناممکن نظرآتا ہے  
ادھر ایک اور افسوسناک واقع اور ہوا کے اے این پی کے سیکٹری جنرل میاں افتخار کو پی ٹی آئی کے کارکن کے قتل میں گرفتار کرلیا گیا جس کی وجہ سے حالات اور زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور تلخیاں کم ہونے کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہونگی اس لئے خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اس مسئلے کو انتہائی تدبر کے ساتھ حل کرنا چاہیئے  ورنہ یہ مسئلہ خیبر پختونخواہ حکومت کے گلے بھی پڑ سکتا ہے


خیبر پختونخواہ میں الیکشن تو ہو گئے امیدوار جیت بھی گئے اور ہار بھی گئے لیکن اپنے پیچھے بہت سی تلخ یادیں چھوڑ گئے کاش ہم سب رات کی تنہائی میں اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنا تجزیہ کریں کہ ہم سب کیا ہیں، کیا کر رہے ہیں، کدھر جارہے ہیں، ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے کیا ہم سب صحیح راستے کی طرف جارہے ہیں یا ہم سب گناہ کو ثواب سمجھ کر کررہے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں کس لئے کیا اپنی ساٹھ، ستر یا اسی سال کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں جو کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود پھر بھی بہتر نہیں ہوتی آخر کیا یہ سب کچھ اپنے ساتھ لے جائیں گے نہیں انتہائی معذرت کے ساتھ ہم جیسے خالی ہاتھ آئے تھے ویسے ہی خالی ہاتھ واپس چلیں جائیں گے لیکن ہاں ہم نے جو یہاں بویا ہے وہ وہاں ضرور کاٹیں گے پلیز ذرا سوچیں اور خود کو تبدیل کریں تبدیلی نظام تبدیل کرنے سے نہیں تبدیلی خود کو تبدیل کرنے سے آئے گی۔ جب تک ہم خود اندر سے ایماندار نہیں ہوتے تبدیلی محض ایک خواب ہی ہوگی۔ 




                                                          سید محمد تحسین عابدی


Saturday 30 May 2015

زمباوے بمقابلہ پاکستان دوسرا ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میچ

زمباوے بمقابلہ پاکستان 

دوسرا ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میچ

پاکستان اور زمباوے کے درمیان دوسرا ون ڈے انٹر نیشنل کرکٹ میچ قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا گیا اس میچ میں تماشائیوں کی ایک بہت بڑی تعداد نے شرکت میچ کا آغاز چار بجے ہونا تھا لیکن لوگ دس بجے ہی سے اسٹیڈیم پہنچنا شروع ہوگئے اس میچ میں شرکت کے لئے راجن پور،  فیصل آباد ، گوجرانوالہ، راولپنڈی، جھنگ اور پنجاب کے تقریبا تمام شہروں سے لوگ آئے تھے جس کی وجہ سے دن دس بجے سے ہی قطاریں لگ گئیں تھیں اسٹیڈیم میں گنجائش نہ ہونے کی وجہ سے کافی افراد کو مایوس لوٹنا پڑا اور ٹکٹوں کی بلیک میں فروخت کی شکایات بھی ملتی رہیں۔

زمباوے کے خلاف دوسرے انٹر نیشنل میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر زمباوے کو بیٹنگ کی دعوت دی یہ فیصلہ کچھ لوگوں کے لئے غیر متوقع تھا کیونکہ لوگوں کا خیال تھا کی پاکستان ٹاس جیت کر بیٹنگ کرے گا اور ایک بار پھر ایک بڑا ہدف دے گا لیکن ٹاس جیت کر زمباوے کو بیٹنگ کی دعوت دینے کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ آنے والی سری لنکا کی مشکل سیریز کی تیاری کرنا ہے کیونکہ پاکستان کو رنز چیزنگ میں مشکل پیش آتی ہے اس لئے پاکستان نے زمباوے کو بیٹنگ کی دعوت دی اسے ایک بہتر فیصلہ بھی کہا جاسکتا ہے۔ 
زمباوے کے اوپنرز نے بیٹنگ کا آغاز انتہائی محتاط انداز میں کیا اور اننگز کے آغاز میں زمباوے کی پالیسی یہ نظر آئی کہ وکٹ نہ گرنے دی جائے اس لئے پہلے دس اور میں سکور کی رفتار کافی سست رہی لیکن جب بیسٹمین کچھ سیٹ ہوگئے تو انہوں نے کُھل کر اپنے سڑوک کھیلنے شروع کئے خاص  طور پر چی بابا نے شاندار کھیل کا مظاہرہ کرتے ہوئے وکٹ کے چاروں طرف خوبصورت سٹروک کھیلے اور تماشائیوں سے خوب داد وصول کی پاکستانی تماشائیوں کی ایک بہت بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ اپنی ٹیم کو تو ہمیشہ سپورٹ کرتے ہیں لیکن 
مخالف ٹیم کے اچھے کھیل پر بھی کُھل کر داد دیتے ہیں

چی بابا کے شاندار کھیل کی وجہ سے زمباوے کی اننگز کے سکور میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا اور زمباوے کی ٹیم ایک اچھے سکور کی طرف گامزن نظر آرہی تھی کہ چی بابا بدقسمتی سے نروس نائینٹز کا شکار ہوئے اور سنچری سے صرف ایک رن کی دُوری پر یعنی 99 کے سکور پر آئوٹ قرار پائے وہ ایمپائر کے فیصلے سے خوش نظر نہیں آئے ان کے آئوٹ ہونے کے بعد زمباوے کی ٹیم مشکلات کا شکار نظر آرہی تھی کہ زمباوے کی ٹیم کے پاکستان کے علاقے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے کھلاڑی سکندر رضا نے زمباوے کی ٹیم کو منجھدار سے نکالنے کی کوشش جاری رکھی اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نظر آئے اور انہوں نے نہایت خوبصورت کھیل کا مظاہرہ کیا اور زمباوے کی ٹیم کے سکور کو آگے کی طرف بڑھاتے رہے اور انہوں نے پچاس اوورز مکمل ہونے سے پہلے اپنی سنچری مکمل کرلی اور پویلین کی طرف اپنا بلا لہرا کر تماشائیوں سے داد وصول کی اور ان کی ٹیم کے کھلاڑیوں نے تالیاں بجا کر ان کی اس خوبصورت کارکردگی کو سراہا زمباوے کی ٹیم نے سات کھلاڑیوں کے نقصان پر جب پچاس اوورز مکمل ہوئے تو 268 رنز بنا لئے تھے ایک بیٹنگ وکٹ پر یہ ایک اچھا سکور تھا لیکن اگر زمباوے کی ٹیم 300 سورنز کر لیتی تو پھر پاکستان کی ٹیم کے لئے کچھ مشکلات پیدا ہوسکتی تھیں لیکن پاکستان کے مبصرین کی رائے تھی کہ پاکستان کیونکہ رن چیزنگ میں کمزور ہے اس لئے پاکستان کی اگر وکٹیں جلدی گر گئیں تو پاکستان کو مشکل پیش آسکتی ہے۔
اس ساری صورتحال کو پیش نظر رکھتے ہوئے پاکستانی ٹیم کے کوچ اور کپتان نے ایک اچھا فیصلہ کیا اور سرفراز سے اننگز کا آغاز کرانے کا ایک مثبت فیصلہ کیا۔ سرفراز نے 22  رنز کی مختصر لیکن خوبصورت اننگز کھیلی وہ کافی پر اعتماد نظر آئے انہوں نے اسٹرائیک کو روٹیٹ کرنے کے علاوہ اپنے شارٹس بھی کھیلے جس کی وجہ سے ٹیم کا مورال بلند ہوا سرفراز کا نمبر بار بار تبدیل کرنے کی بجائے انہیں بطور اوپنر ہی بھیجنا مناسب ہے کیونکہ اس سے ٹیم کو کافی فائدہ ہوسکتا ہے اگر ان کا نمبر بار بار تبدیل کیا جاتا رہا تو وہ اپنا اعتمادکھو سکتے ہیں جس سے پاکستان  مستقبل کے ایک اچھے کھلاڑی سے محروم ہو سکتا ہے۔ سرفراز کے آئوٹ ہونے کے بعد محمد حفیظ کھیلنے کے لئے آئے وہ پندرہ رنز بنا کر آئوٹ ہو گئے اُن کے بعد اسد شفیق کھیلنے کے لئے میدان میں آئے اور انہوں نے انتہائی ذمہ دارانہ بیٹنگ کا مظاہرہ کرتے ہوئے 39 رنز کی اچھی اننگز کھیلی انہوں نے اظہر علی کے ساتھ ایک اچھی پاٹنر شپ قائم کی اور سنگل اور ڈبل رنز لے کر سٹرائیک روٹیٹ کرتے رہے جو اس وقت کا تقاضا تھا۔دوسری طرف اظہر علی شی ٹینکر کا کردار ادا کرتے ہوئے وکٹ پر جمے رہے اور ان کو اسد شفیق کے سٹرائیک روٹیٹ کرنے کا کافی فائدہ ہوا جس کی وجہ سے انہوں نے وکٹ کے چاروں طرف خوبصورت سٹروک پلے کا مظاہرہ کیا اور اپنی خوبصورت سینچری مکمل کی انہوں ایک بار پھر ایک کپتان کی خوبصورت اننگز کھیلی۔ جب سے اظہر علی کو کپتان بنایا گیا ہے اُن کی بیٹنگ میں نکھار آگیا ہے اگرچہ انہیں ٹیسٹ میچ کا کھلاری سمجھا جاتا تھا لیکن انہوں نے اپنے بلے سے جواب دے کو ناقدین کے منہ بند کردئیے ہیں کیونکہ نہ صرف وہ 
سٹرائیک روٹیٹ کرتے نظر آرہے ہیں بلکہ وہ اُن کا رن ریٹ بھی کافی بہتر ہے جو کہ ٹیم کے لئے ایک خوش آئند بات ہے
اسد شفیق کے 39 رنز پر آئوٹ ہونے کے بعد اظہر علی اور حارث سہیل نے ھدف کا تعاقب شروع کیا لیکن اظہر علی شاندار 102 رنز کی اننگز کھیل کر آئوٹ ہوگئے تو حارث سہیل نے  ٹیم کو سہارا فراہم کیا اور 269 کے ھندسے کو عبور کرکے نہ صرف میں میں کامیابی کا پرچم بلند کیا بلکہ سیریز بھی جیت لی حارث سہیل نے شاندار نصف سینچری سکور کی انہوں نے 52 رنز کی خوبصورت ناٹ آئوٹ اننگز کھیلی
اس میچ میں  بائو لنگ میں پاکستان کی طرف وہاب ریاض اور یاسر شاہ جبکہ زمباوے کی طرف سے کریم گریمر نے شاندار کارکردگی دکھاتے ہوئے دو کھلاڑیوں کو آئوٹ کیا اس میچ میں یاسر شاہ کی کارکردگی بائولنگ میں کافی بہتر نظر آئی انہیں مسلسل چانس دینا چاہیئے تاکہ اُن کی کارکردگی مزید بہتر ہو اور وہ مستقبل میں ٹیم کے لئے اور زیادہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔ میچ کی سب سے خوبصورت بات تماشائیوں کا ڈسپلن اور اُن کی دونوں طرف سے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر داد تھی تماشائیوں کے اعلیٰ رویے اور ڈسپلن کے اعلیٰ مظاہرے کی وجہ سے پاکستان کا نام دنیا میں بلند ہوا ہے اور دوسری ٹیموں کو بھی سوچنا چاہیے کی وہ بھی پاکستان میں آکر کھیلیں کیونکہ پاکستان جیسا سپورٹنگ کرائوڈ شائد ہی دُنیا میں ہو۔ پاکستان کے عوام کی پرزور اپیل ہے کہ دوسری ٹیمیں پاکستان ضرور آئیں اور خوبصورت کرکٹ کھیلیں
                                              

                                                         سید محمد تحسین عابدی                

Thursday 28 May 2015

ولایتِ حضرت علی علیہ السلام










#axact ایگزیکٹ جعلی کمپنی

ایگزیکٹ جعلی کمپنی

پاکستان میں قائم ایک ایسی جعلی کمپنی تھی جس نے جعلی ڈگریاں اور ڈپلوموں کی فروخت کے ذریعے اربوں روپے کمائے اس  اوراس حرام کی کمائی ہوئی ناجائز دولت کے بل بوتے پر  اپنی ناپاک خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں ایک بہت بڑے میڈیا گروپ بول کا اجرا کیا تاکہ پاکستان میں بڑے بڑے لوگوں کو  بلیک میل کرکے اور زیادہ رقم حاصل کی  جاسکے اور پھر اس حرام کی کمائی کے ذریعے پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب کو پورا کیا جاسکے اس سارے سکینڈل کے پیچھے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی کچھ انتہائی طاقت ور شخصیات کا ہاتھ ہے کیونکہ طاقت ور شخصیات کے آشیرباد کے بغیر یہ کام ناممکن نظر آتا ہے اس گہری سازش کے پیچھے کن نادیدہ عناصر کا ہاتھ ہے یہ تو آنے والا بے رحم وقت بتائے گا کیونکہ کچھ عناصر سیاست اور عوام میں اپنی مقبولیت میں  انتہا ئی  کمی کے بعد یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ پاکستان کی سیاست میں اب ان کا مقام ختم ہوچکا ہے اور سیاست کیونکہ ان کا ذریعہ معاش بن چکا تھا اس وجہ سے انہوں نے ایگزیکٹ کو استعمال کرنے کا سوچا اور ان اندیکھے ہاتھوں کی سرپرستی میں جعلی ڈگریوں کی فروخت کا یہ کام دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہا 

بہت سی میڈیا کی شخصیات نے بغیر تحقیق کے بول ٹی وی چینل کی طرف سے پیش کئے گئے بہترین پیکج کو قبل کرتے ہوئے اس چینل کی آفر کو قبول کیا اور آج حقیقت کھلنے پر نہ صرف اپنے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں بلکہ ان کو روزگا کے لالے بھی پڑ گئے ہیں لیکن کچھ افراد ایسے بھی یقینا تھے جن کو اندر کی صورت حال کا اچھی طرح علم تھا لیکن لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی لیکن جیسے ہی ایگزیکٹ پر برا وقت آیا وہ  پرندے کی طرح ایگزیکٹ کا بسرا چھوڑ کر کر نئے بسرے کی تلاش میں اُڑ گئے کیونکہ اُن کو علم ہوگیا تھا کہ یہاں ان دانہ پانی ختم ہوگیا ہے ۔
ایگزیکٹ کے آفس سے لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈگریوں اور ڈپلوموں کا برآمد ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جعلی ڈگریوں کا یہ گھناونا کاروبار انتہائی بڑے پیمانے پر ہورہا تھا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ کاروبار بغیر کسی بڑی سرپرستی کے ہورہا ہو اور حکومت اس سے بے خبر ہو اور اپنی آنکھیں کبوترکی طرح بند کئے رکھے یقینا حکومت کے علم میں بہت کچھ تھا لیکن افسوس ہمارے عدالتی نظام پر کہ عدالت نے ایگزیکٹ کو سٹے آڈرد کی چھتری فراہم کررکھی تھی اور دوسری طرف حکومت کی سیاسی مصلحتیں بھی نظر آتی ہیں۔
ہمارے ملک میں حکومتیں دُور دُور کی کوڑی تو ڈھونڈھ کر لاتی ہیں لیکن یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتیں کہ اُن کی ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے اقدام جب اُٹھایا جاتا ہے جب بہت سارا پانی سر سے گزرجاتا ہے یا پھر بیرونی میڈیا میں خبر کی وجہ سے کوئی تہلکہ مچتا ہے بھلا ہو امریکی اخبار کا جس نے ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنی کو بے نقاب کیا تو حکومت کو بھی ہوش آیا کہ اب اقدام کرنا پڑے گا ورنہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ امریکی اخبار میں خبر کی آمد سے پہلے ہی ایگزیکٹ کے خلاف کاروائی عمل لائی جاتی تو کم از کم دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہوتی اور پاکستان اور اس کی عوام بہت ساری زحمتوں سے بچ سکتی تھی کیا حکومت کو ایگزیکٹ کے بارے میں علم نہیں تھا یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اگر حکومت کو ایگزیگٹ کے بارے میں علم نہیں تھا تو پھر اسے حکومت کی ناکامی تصور کیا جاسکتا ہے اور اگر حکومت کو علم تھا تو پھر حکومت نے طاقت ور شخصیات کے خوف سے کاروائی کیوں نہیں کی ظاہر ہے دونوں صورتوں میں حکومت
کو جواب دینا چاہیئے۔
حکومت نے تھوڑی سی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ تو ایف آئی اے کے ذریعے درج کرادیا ہے لیکن یہ تو عوام کے سامنے سب کچھ ہے اور عوام اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ سب کچھ دیکھ رہی ہے لیکن پسِ پردہ بھی بہت ساری چیزیں چل رہی ہوتی ہیں جن کا علم لوگوں کو نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونے دیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے معاملات میں بہت سارے سیاسی کھیل کھیلے جاتے ہیں، طاقت ور شخصیات کا پریشر الگ ہوتا ہے کچھ لو اور دو کی پالیسی اپنائی جاتی ہے عدالتوں سے مبہم فیصلے آتے ہیں عوام اور میڈیا پر کچھ عرصہ شور مچتا ہے اور پھر معاملہ کسی بھولی بسری یاد کی طرح دبا دیا جاتا ہے اور کسی نئے سکینڈل کا شور مچتا ہے، ٹاک شوز ہوتے ہیں تبصرے ہوتے ہیں الزمات کی بارشیں ہوتی ہیں کمیشن بیٹھتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں اور کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپوٹوں اگر مرضی کے مطابق ہو تو شائع کردیا جاتا ہے ورنہ دبا دیا جاتا ہے اور معاملہ ختم سامنے لوگ قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں اور پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے لوگ دُنیا کا مذاق اُڑاتے ہوئے کی نئی مہم اور کسی نئے معرکے کی تلاش میں کسی نئے قربانی کے بکرے کو تلاش کرتے ہیں۔ سب کا کروبار اسی طرح چلتا رہتا ہے اور ہم ترقی --
کی منزل سر کرتے ہیں۔ ترقی زندہ باد ترقی زندہ باد
اس سکینڈل کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں تعلیم کے ساتھ کھیل کھیلا گیا اور ان لوگوں کو جعلی ڈگریوں سے پیسہ لے کر نوازا گیا جو اہل نہیں تھے اور اُن لوگوں نے پیسے کے بل بوتے پر یہ ڈگریاں حاصل کی اور پھر اپنی سفارش اور کمیشن کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں کو نوکریاں حاصل کیں کیا آ پ تصور کرسکتے ہیں کہ جن لوگوں نے جعلی ڈگریوں اور سفارش کے بل بوتے پر یہ نوکریاں حاصل کی ہونگی کیا  وہ اپنی نوکریوں سے انصاف کر سکیں گے کیونکہ انہوں نے غلط راستے اور جعلی ڈگری کے ذریعے نوکری حاصل کی ہوگی تو اس بآت کا قوی امکان ہے کہ وہ مستقبل میں غلط راستہ ہی اپنائیں گے اور اس طرح دنیا کے اس دیمک زدہ معاشرے کو گُھن کی طرح چاٹ جائیں گے اور وہ لوگ جو اپنی محنت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیا اُن کی حق تلفی نہٰیں ہوگی کیا اُن کے دل و دماغ میں یہ جنگ شروع نہیں ہوجائے گی کہ محنت کا کیا فائدہ جب شارٹ کٹ ہی فائدے کا راستہ ہے تو کیوں نہ شارٹ کٹ ہی اپنایا جائے اور کیا یہ دنیا آہستہ آہستہ اِس قسم کے سلو پوائزن سے جہنم کا  شکار نہیں ہوجائے گی لیکن یہ کون سوچتا ہے ہمیں تو ترقی کرنی ہے، بنگلہ چاہیئے، کار چاہیئے، بنک بیلنس چاہیئے اور پہلو میں حور چاہیئے اس کے لئے ہمیں چاہے کتنا ہی غلط کام کیوں نہ کرنا پڑے اس کے لئے ہم تیار ہوجاتے ہیں اور معاشرے کے وہ نیک لوگ جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں اپنے وجود سے لڑتے لڑتے تھکتے چلے جارے ہیں لیکن افسوس صد افسوس نقار خانے میں طوطی کی آواز
کوئی نہیں سنتا کیونکہ اس کی آواز دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی ہے۔
سچ   سے   ہم    گھبراتے    ہیں
جھوٹ کے پیچھے ہم جاتے  ہیں
کس   منزل  کو   ہم  جاتے   ہیں
کونسا   رستہ    ہم    اپناتے   ہیں
افسوس! کس کو اپنا دکھڑا روئیں
اس حمام  میں  تو  سب ننگے ہیں
ہمارے    بند   ذہنوں   کو  یاروں

دیمک   چاٹ    گئی    ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم سچائی کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور جب سچ ہمارے سامنے کسی بند بوتل کے جن کی طرح کُھل کر سامنے آجاتا ہے تو ہم اس سچائی سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم دوسروں پو انگلیاں اُٹھاتے نہیں تھکتے لیکن اپنے گریبان میں ایک لمحے کے لئے بھی جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیا ہم خود بھی اس قسم کے کاموں میں شامل نہیں ہوجاتے کیا ہم خود جھوٹ نہیں بولتے، رشوت نہیں لیتے اور دیتے، بھتہ خوری نہیں کرتے، ٹارگٹ کلنگ نہیں کرتے،سکولوں میں نقل کرکے پاس نہیں ہوتے، الیکشن میں ووٹ ڈالتے وقت دھاندلی نہیں کرتے، رمضان میں چیزیں منہگے داموں فروخت نہیں کرتے، بجلی ، گیس یا ٹیلی فون کا کنکشن لگوانے کے لئے کمیشن نہیں دیتے، کرکٹ میں سٹہ نہیں کھیلتے، مساجد اور امام بارگاہوں سے جوتے چوری نہیں کرتے، مساجد اور امام بارگایوں کے چندے نہیں کھا جاتے۔ کسی کی بہن، بہو اور بیٹی پر الزام لگاتے ہوئے نہیں ڈرتے، جہیز کا تقاضا نہیں کرتے، امیر کو سلام نہیں کرتے اور غریب کو دھکے نہیں دیتے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ سب ہمارے معاشرے کی کڑوی ترین سچائی ہے جیسے ہم ہیں ویسی ہی ہمیں حکومت بھی ملتی ہے۔ ہر شخص اپنے اندر رات کی تنہائی میں اپنے اللہ کو یاد کرتے ہوئے چند لمحے کے لئے سوچے کہ وہ اندرسے کیا ہے تو اسے احساس ہوگا کہ اِس دُنیا کے حمام میں سب ننگے ہیں بڑا آدمی بڑا ہاتھ مار رہا ہے اور چھوٹا آدمی چھوٹا ہاتھ مار رہا ہے بس ہاتھ پڑنے کی دیر ہیں لکڑ ہضم پتھر ہضم سب کچھ ہضم کیونکہ ہمارے بند ذہنوں کو دیمک چاٹ گئی ہے خرابی نظام میں نہیں ہوتی خرابی ہم سب میں خود ہے جب تک ہم خود کو صحیح نہیں کریں گے ہم سب خون کے آنسو روتے رہیں گے اور ٹی ٹاک شوز میں افسوس سے سر ہلا کر تبصرے کرتے رہیں گے کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے یاد رکھو برائی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اس دنیا میں بھی بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی لیکن افسوس انسان اسے نہیں سمجھتا کیونکہ وہ خسارے میں ہے۔ اگر اب بھی ہم نہ سمجھے تو یاد رکھو اللہ کی تلوار نازل ہوگی اور سب کا صفایا کرے گی اس لئے بہتر ہے اس سے پہلے کہ وہ نازل ہو اپنے اعمال کو صحیح کولوورنہ تمہارے پاس وقت نہیں ہوگا۔







سید محمد تحسین عابدی





Wednesday 27 May 2015

پاکستان بمقابلہ زمباوے

پاکستان بمقابلہ زمباوے
پہلا ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ میچ
پاکستان اور زمباوے کے درمیان پہلا انٹرنیشنل میچ قذافی
 اسٹیڈیم لاہور میں کھیلا گیا پاکستانی ٹیم کے کپتان اظہر علی 
نے ٹاس جیت کر ایک اچھی وکٹ پر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا 
جو کے بعد میں ایک اچھا فیصلہ ثابت ہوا پاکستان کے اوپنرز
 اظہر علی اور محمد حفیظ نے احتیاط سے اننگز کا آغاز کیا
 پہلے پانچ اورز میں سکور میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے
 میں نہیں آیا لیکن اس کے بعد پاکستانی بیسٹمینوں نے 
کُھل کر کھیلنا شروع کیا اور زمباوے کے بالروں کی پٹائی 
شروع کی انہوں نے وکٹ کے چاروں طرف خوبصورت 
سٹروک کھیلے اور تماشائیوں سے خوب داد وصول کی
 اظہر علی 79 شاندار رنز بنا کر آئوٹ ہوئے اُن کے اور
 محمد حفیظ کے درمیان 170 رنز کی شاندار پاٹنرشپ قائم 
ہوئی اظہر علی کے بعد شعیب ملک میدان میں آئے اورمحمد 
حفیظ کے ساتھ کھیلنا شروع کیا محمد حفیظ جو بنگلہ دیش 
میں ون ڈے سیریز میں اتنے کامیاب نہیں ہوئے تھے
انہوں نے تماشائیوں کے شکوے کو دُور کرتے ہوئے شاندار
 86 رنز بنائے وہ شروع میں کافی محتاط تھے لیکن بعد میں انہوں
 نے خوب ہاتھ دکھائے اور قذافی اسٹڈیم میں اپنا خوب رنگ جمایا محمد حفیظ کے 86 رنز پر آئوٹ ہونے کے بعد حارث سہیل نے بلا سنبھالا اور میدان میں آکر اپنا رنگ جمانا شروع کیا دوسری طرف شعیب ملک جن کی ون ڈے انٹر نیشنل میں
 واپسی ہوئی تھی اپنے تجربہ کو کام میں  لاتے ہوئے وکٹ کی
 دوسری طرف چٹان کی طرح جمے رہے اور سکور کو آگے
 کی طرف بڑھاتے رہے شعیب ملک اور حارث سہیل کی
 شراکت میں پاکستان کے سکور میں تیزی سے اضافہ ہوا اور
 دونوں کھلاڑیوں نے وکٹ کے چاروں طرف انتہائی دلکش
 سٹروک کھیلے اور 201 رنز کی شاندار شراکت قائم کی اس شراکت کے دوران شعیب ملک نےشاندار سنچری سکور کی اور سنچری سکور کرنے پر وہ اللہ کی بارگاہ میں سِجدہ
 شکر بجا لائے دوسری طرف حارث سہیل نے 89 رنز کی
ایک دلکش اننگز کھیلی شیعب ملک 112 رنز کی خوبصورت 
اننگز کھیل کر آئوٹ ہوئے جبکہ حارث سہیل 89 رنز بنا کر
 ناٹ آئوٹ رہے اور اس طرح پاکستان کی ٹیم ایک پہاڑ جیسا
سکور 375 رنز بناے میں کامیاب ہوئی جب پاکستان کی باری
 کے پچاس اورز مکمل ہوئے تو پاکستان کا سکور تین کھلاڑیوں
 ک ے نقصان پر 375 رنز تھا اور پاکستان کی ٹیم نے زمباوے
کی ٹیم کو 376 رنز کا ایک مشکل ٹارگٹ دیا تھا۔
زمباوے کی ٹیم نے بھی اپنی اننگز کا آغاز محتاط انداز میں
 کیا  اور وکٹ پر رُک کر کھیلنے کی کوشش کی پھر آہستہ آہستہ  ہدف کے تعاقب میں بڑھنا شروع کیا دو کھلاڑیوں کے آئوٹ ہونے کے بعد ایک طرف سے مساکازڈا نے جاراحانہ انداز اپناتے ہوئے پاکستانی بالروں کی پٹائی شروع کی اور  چھکے اور چوکے لگانے شروع کئے جس سے کھیل میں گرمی جوشی پیدا ہوگئی اور زمباوے کے سکور میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہونا شروع ہوا دوسری طرف چکمبورا چٹان کی طرح جمے رہے جس کی وجہ سے ایک اچھی پاٹنر شپ قائم ہوئی اور زمباوے کی ٹیم واپس میچ میں آنے لگی لیکن اس موقع پر مساکازڈا 73 رنز کی جاراحانہ اور شاندار اننگز کھیل کو آئوٹ ہوگئے لیکن اس مشکل موقع پر چکمبورا نے ہمت نہ ہاری اور وہ زمباوے کے دوسرے کھلاڑیوں کے ساتھ مل کر مسلسل سکور میں اضافہ کرتے رہے اور ہدف کو حاصل کرنے کی کوشش میں سر دھڑ کی بازی لگاتے رہے لیکن کیونکہ 376 رنز کا ہدف بہت بڑا تھا اس وجہ سے وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب نہ ہوسکے  لیکن ان کو اُن
 کی اس کوشش کا ثمر اس صورت میں ملا کہ چکمبورا نے
اپنی سنچری مکمل کرلی اور نہایت دلکش 117 رنز بنائے۔
 زمباوے کی باری کے جب 50 اوورز مکمل ہوئے تو سکور 334 رنز پر پانچ کھلاڑی آئوٹ تھا اس طرح زمباوے کی ٹیم 41 رنز سے قذافی اسٹیڈیم میں کھیلا جانے والا میچ ہار گئی لیکن زمباوے کی ٹیم نے اپنے خوبصورت کھیل پاکستانیوں کے دل موہ لئے زمباوے کی ٹیم کے کھیل کو مدِ نظر رکھتے ہوئے یہ امید کی جاری ہے کہ آئندہ ہونے والے میچ میں زمباوے کی ٹیم اس سے بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گی اس میچ میں وہاب ریاض نے تین جبکہ انور علی اور شعیب ملک نے ایک ایک کھلاڑی کو آئوٹ کیا۔ سعید اجمل کے جانے کے بعد پاکستان کی بائولنگ میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی بائولنگ میں کافی بہتری کی گنجائش ہے اس کے علاوہ فیلڈنگ کے شعبہ کی طرف بہت ہی زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے کیونکہ اس میچ میں بھی کیچ گرائے گئے کیونکہ ون ڈے اور ٹی ٹوئینٹی میں فیلڈنگ کی اہمیت بہت زیادہ ہوجاتی ہے ایک کیچ کا کرلینا یا ایک کیچ کا گرادینا پورے میچ کا پانسا پلٹ کر رکھ دیتا ہے گو کہ پاکستان کی ٹیم نے زمباوے کی نسبتا کمزور ٹیم کے خلاف کامیابی کا جھنڈا تو گاڑ دیا لیکن اس کا اصل اور کڑا امتحان سری لنکا جیسی مضبوط ٹیم کے خلاف ہوگا کیونکہ پاکستان اور سری لنکا کی سیرز فیصلہ کرے گی کہ پاکستان کہاں کھڑا ہے کیونکہ زمباوے کے خلاف کامیابی کے بعد کرکٹ پنڈتوں کا بغلیں بجانا صحیح نہیں ہے۔


سید محمد تحسین عابدی