Thursday, 30 October 2014

LOVE FOR ALL





محبت


محبت کا مطلب ہے کسی سے پیار، لگائو، اُنسیت یا دل کے اندر اَس ہستی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے کا جذبہ رکھنا، جس سے کوئی شخص، پیار، انسیت اور لگائو رکھتا ہو محبت میں لین دین نہیں ہوتا یہ ایک سچا اور خالص جذبہ ہے جو انسان کے دل کے اندر سے پھوٹتا ہے اور انسان کے پورے وجود کو جکڑ لیتا ہے جب تک محبت خالص  اورسچی ہو وہ محبت کہلاتی ہے لیکن جب محبت خالص اور سچی نہیں ہوتی تو پھر اُس کو فلرٹ کا نام دیا جاتا ہے اور وہ محبت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اُس کے اندر محبت کا جذبہ رکھا۔ اور انسان میں محبت کا یہی جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ دُنیا قائم و دائم ہے ورنہ یہ دُنیا جہنم بن جاتی اور شاید اِس دُنیا کا وجود ہی ختم ہو جاتا۔

محبت کی اقسام


 اللہ سے محبت

 نبیوں اور رسولوں سے محبت

 اپنے وطن سے محبت

 اپنے والدین اور اپنے خاندان سے محبت

 دُنیا کے لوگوں سے محبت

 سچی محبت جس کی اِس دُنیا میں بہت کم مثالیں ہیں۔

 اللہ سے محبت

محبت کی بے شمار اقسام ہیں سب سے پہلے انسان کو اپنے اللہ سے محبت ہوتی ہے لیکن مختلف مذاہب میں اِس کی صورتیں مختلف ہیں کہیں اللہ کو دُنیا میں میں خدا کے نام سے پکارا جاتا ہے، کہیں ایشور کہا جاتا ہے جاتا ہے کہیں دیوتا سمجھ کر اُس کی پوچا کی جاتی ہے تو کہیں اللہ کو گوڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مسلمان ایک اللہ کو مانتے ہیں اور اپنے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ سب مذاہب اور عقائد کے لوگ اپنے اپنے نکتہ نظر سے اللہ سے محبت کرتے ہیں یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب کسی نہ کسی صورت میں اللہ کو مانتے ہیں اور اُس سے محبت کرتے ہیں لیکن راستے جدا ہیں اور زاویہ نگاہ کا فرق ہے۔ یہ انسان کی اللہ سے محبت ہی تو ہے جو دُنیا کے لوگوں کو ایک رشتہِ انسانیت میں جوڑے ہوئے ہے۔

نبیوں اور رسولوں سے محبت


اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں لوگوں کی ہدایت اور انہیں سیدھا راستہ یعنی صراطِ مستقیم دکھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام اور رسول علیہ السلام بھیجے اللہ نے ہر اُمت کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہ السلام اور رسول بھیجے اور بعض امّتوں میں تو ہدایت کے لئے انبیاء کثیر تعداد میں بھیجے اِس وقت دُنیا میں تین بڑے مذاہب ہیں جو اپنے انبیاء علیہ السلام کی پیروی کرتی ہیں مسلمان نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور اُنہیں اپنا نبی مانتے ہیں اور اُن سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ اور اُن سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ یہودی حضرت یعقوب علیہ لسلام کے پیروکار ہیں اِس کے علاوہ یہودیوں میں نبیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے اور سب سے زیادہ انبیاء اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ہداہت کے لئے بھیجے ان میں حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت دائود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور دیگر جلیل القدر انبیاء شامل ہیں جن کی یہودی یا بنی اسرائیل کے لوگ پیروی کرتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت دُنیا کی وہ واحد اُمت جو تمام انبیاء علیہ السلام پر ایمان رکھتی ہے اور اُن سے شدید محبت رکھتی ہے اور ان سب کا احترام کرتی ہے اور عقیدت رکھتی ہے۔ یہ ہمارے نبی پاک کی تعلیم اور تربیت کا ہی کرشمہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں محبت، عقیدت اور احترام کا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان محبت اورعقیدت کے جذبے سے سرشار تمام انبیاء سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔


اہلبیت علیہ السلام سے محبت


اہلبیت علیہ السلام سے محبت کا حکم ہے رسول پاک صلیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک ہے کہ میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اِن سے رجوع کرتے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک قرآن مجید اور دوسرے میرے اہلبیت کیونکہ اللہ کے رسول صلیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت علیہ السلام ہی وہ پاک اور اللہ کی چُنی ہوئی اور منتخب ہستیاں ہیں جو قرآن مجید کی صحیح تشریح کر سکتی ہیں اور مسلمانوں کو صراطِ مستقیم یعنی سیدھے راستے پر گامزن کر سکتی ہیں اِس لئے اہلیبت سے محبت کرنا اور اُن سے عقیدت اور احترام رکھنا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ آج مسلمان دُنیا میں صرف اِس وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ اُن کے دلوں میں اہلیبت کی وہ محبت نہیں ہے اور مسلمان اہلیبت علیہ السلام کے کردار اور اُن کے عمل کی ہیروی نہیں کرتے اور جو اہلبیت سے محبت کے دعوے دار ہیں وہ اہلبیت سے محبت کا ڈھول تو ہر روز پیٹتے ہیں لیکن یہ بھے ایک کڑوا سچ ہے کہ محبت کے دعوے دار بھی اہلیبت کے کردار و عمل کی بالکل پیروی نہیں کرتے کسی سے صرف محبت کرنا کافی نہیں ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں جب تک آپ اُس کے کردار وعمل کو مکمل طور پر نہیں اپناتے محبت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے محبت کرنے والوں سے میرا سوال ہے کے وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا وہ اہلبیت کے کردار و عمل کی پیروی کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ وہ مغربی معاشرے کی نام نہاد جمہوریت کے تو قائل ہیں اور اِس نام نہاد جمہوریت سے محبت کے دعوے کرتے ہیں یہ جمہوریت جو انہیں صرف خود غرضی اور دولت پرستی سکھاتی ہیں لیکن اللہ کے چُنے ہوئے منتخب بندوں کی پیروی کرنا اُن کے لئے مشکل ہے۔ کیونکہ اگر اہلبیت علیہ السلام کی پیروی کی جائے گی تو پھر سچ بولنا ہوگا۔ رشوت اور سفارش سے دُور رہنا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے بچنا ہوگا۔ کمزور اور پسے ہوئے طبقے کو انصاف دینا پڑے گا اور یہ کسی طرح بھی لوگوں منظور نہیں ہے اسی لئے وہ اپنے جیسے غلط اعمال کرنے والے افراد کو چُنتے ہیں اور پھر مگر مچھ کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ آپ ایسے موقع پر اللہ کے اُن نیک اور چُنے ہوئے بندوں کے کردار اور عمل کو تو بالکل نظر انداز کر دیتے ہو لیکن اپنے چُنے ہوئے بندوں کی پیروی کرنے بیٹھ جاتے ہو جو تمہیں ظُلم اور نا انصافی کے سوا کچھ بھی نہیں دتیے افسوس ہے اے لوگوں تم لوگوں کے اِس دوہرے معیار پر۔ افسوس صد افسوس۔ یاد رکھو اللہ کے چُنے ہوئے اور منتخب کئے ہوئے بندوں اور تم عام انسانوں کے چُنے ہوئے اور منتخب بندوں ًٰمیں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی وہ فرق ہے جسے تم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے کیونکہ تم اللہ کے چُنے ہوئے منتخب بندوں کو اپنے جیسا سمجھتے ہو۔ افسوس تم سمجھتے سب کچھ ہو لیکن سمجھنا ہی نہیں چاہتے اگر یہ بات تم سمجھ جائو تو یہ دُنیا جنت بن جائے گی۔


وطن سے محبت


انسان جس مُلک میں رہتا ہے، جس ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہے اور اُس پر عمل کرتا ہے وہ اُس کا وطن ہوتا ہے۔ وطن کی محبت کو اپنے وطن کی مٹی کی محبت سے تشبیع دی جا تی ہے۔ انسان کو اپنے وطن سے اتنی شدید محبت ہوتی ہے کی وہ اپنے وطن کے لئے اپنا تن، من، دھن، سب کچھ قربان کرنے کے لئےتیار ہوتا ہے۔ اگرچہ لوگ اپنے رزق کی تلا ش میں دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں لیکن وطن کی محبت کی کشش اُن کو ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنی طرف کھنچتی ہے اور دُور پردیس چلے جانے والے لوگ اس طرح کی صدا لگاتے نظر آتے ہیں۔

اماں مینوں  اپنے  وطن  دی  یاد  ستاودیں  ہے

اماں مینوں وطن دی مٹی دی خوشبو آودیں ہے

اپنے والدین اور اپنے خاندان سے محبت


انسان میں اللہ تعالیٰ نے محبت کا ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے والدین، اپنے بہن، بھائیوں، اپنی بیوی اور بچوں
اور اپنے خاندان اور اپنے رشتہ داروں سے قدرتی طور پر محبت کرتا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور اسلام میں یہاں تک حکم ہے کہ اگر آپ کے والدین بوڑھے ہو جائیں تو اُف تک بھی نہ کہو اور اگر وہ کافر بھی ہوں تو اُن کا پورا خیال رکھو اور اُن سے محبت کرو اور اس کے علاوہ اپنی شریک حیات کا مکمل خیال اور اُس سے محبت سے پیش آنے کا حکم ہے، بچوں سے محبت کا حکم اسلام دیتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ جو بچوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے سے نہیں۔  قرابتداروں یعنی خاندان کے لوگوں کا خیال رکھنے اوراُن سے محبت کرنے کا بھی حکم ہے۔

دُنیا کے لوگوں سے محبت


انسان جب اِس دُنیا میں آتا ہے تو جہاں اسے اُس کے بہن، بھائیوں سے محبت ملتی ہے وہیں وہ دُنیا کے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ایک رشتہِ انسانیت محبت میں بندھ جاتا ہے۔ دُنیا میں اُس کے بہت سے دوست بنتے ہیں جن سے وہ محبت کرتا اور وہ اُس سے محبت کرتے ہیں اِس کے علاوہ اُس کا واسطہ دُنیا کے اور لوگوں کے ساتھ پڑتا ہے جیسے استاد، ڈاکٹر، وکیل، سیاستدان، دنیی اور مذہبی رہنما اور دیگر بے شمار افراد ہیں جن سے انسان تعلق بناتا ہے اور یہ تعلق کا رشتہ محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اِس سفر میں اُسے بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جنہیں اُس کی مدد اور محبت کی ضرورت ہوتی اور اسے دوسرے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہیار اور محبت کا سائیکل اسی طرح چلتا رہتا ہے اگرانسان لوگوں سے محبت نہ کرے تو یہ دُنیا رہنے کے قابل نہ رہے۔

 سچی محبت جن کی اِس دُنیا میں بہت کم مثالیں ہیں


دُنیا میں کچھ لوگوں نے ایسی سچی اور لازوال محبت کی جس نے محبت کو امر بنا دیا اِن میں ہیر رانجھا، سسی پنوں۔ نوری جام تماچی۔ لیلیٰ مجنوں شیریں فرہاد اور دیگر افراد یہ وہ سچی محبت کے علم بردار جنہوں نے سچی محبت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ شاعروں نے اِن پر شاعری کی لکھاریوں نے ان پر داستانیں قلمبند کیں دُنیا اَن کی سچی محبت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اِن کی سچی محبت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سچی محبت جرم نہیں ہے۔

محبت اللہ کا عطیہ ہے

محبت اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عطیہ ہے جس کی انسان جتنی بھی قدر کرے وہ کم ہے۔ محبت ایک عظیم جذبہ ہے جو انسان کے اندر دل کی گہرائی سے پھوٹتا ہے اور اِس دُنیا میں رنگیناں بکھیر دیتا ہے۔ 


  سید محمد تحسین عابدی 

Islam is a religion of peace and love: Pak China Relations.

Islam is a religion of peace and love: Pak China Relations.: stehseenabidi.blogspot.com پاکستان چین کی دوستی ہمالیہ سے اُونچی پاکستان   چین دوستی کا آغاز پاکستان 1947 کو قا...




پاکستان چین کی دوستی ہمالیہ سے اُونچی


پاکستان چین دوستی کا آغاز


پاکستان 1947 کو قائداعظم کی مدبرانہ قیادت میں آزاد ہوا جبکہ چین 1949 میں مائوزے تنگ کی عظیم قیادت اور اُن کے لانگمارچ کے ثمرات کے نتیجہ میں آزاد ہوا۔ 1947 میں چین کی آزادی کے ساتھ ہی  پاکستان اور چین کے تعلقات بہتری کی طرفگامزن ہونا شروع ہو گئے تھے۔ پاکستان نے چین کی آزادی کو تسلیم کیا یہ پاکستان اور چین کی دوستی کا نقطہ آغاز تھا یا اسےاِس طرح بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ پاکستان اور چین کی دوستی کی ابتدا تھی جو بعد میں کوہَ ہمالیہ سے بھی بلند دوستی میںتبدیل ہو گئی۔

ہندوستان چین اور کا سرحدی تنازعہ


 ھندوستان اور چین کے سرحدی تنازعہ کا آغاز ہوا اور دونوں ملکوں کی فوجیں  1962 میں ایک دوسرے کے آمنے سامنے آکھڑی ہوئیں اور ھندوستان اور چین میں سرحدی جھڑپیں شروع ہوگئیں اُس وقت چین عالمی برادری سے کٹا ہوا تھا لیکنپاکستان نے اِس موقع پر چین کا بھرپور ساتھ دیا جس کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بلند ہوا اور پاکستان اورچین کے تعلقات زیادی بہتری کی طرف گامزن ہونا شروع ہوگئے اور پکستان اور چین دوستی کے مظبوط رشتے میں بندھناشروع ہوگئے۔ اِس موقع پر پاکستان اور چین نے اپنے سرحدی مسائل احسن طریقے سے حل کرلئے اور یہ پاکستان اور چین کیدوستی کا کامیابی کی طرف سفر کا آغاز تھا۔

 پاک بھارت جنگ 1965 اور چین کا کردار


  پاک بھارت جنگ 1965 میں چھڑ گئی۔ بھارت نے کشمیر کے تنازعہ پر بغیر اعلانِ جنگ کئے جنگ شروع کردی پاکستان کیبہادر افواج نے نے بھارت کی فوج کو منہ توڑجواب دیا اور بھارت کو اِس جنگ میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اس جنگ میں چیننے پاکستان کا ہر طرح ساتھ دیا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی اور اپنی سچی دوستی کا حق نبھایا اِس جنگ میں چین نےپاکستان کی حمایت میں جو کردار ادا کیا وہ مثالی تھا اور پاکستان اور چین کی دوستی ایک مثالی دوستی میں تبدیل ہوگئی۔

 پاک بھارت جنگ 1971  اور چین کا کردار


 بھارت  نے 1971 میں 1965 کی جنگ کی شکست کا بدلہ لینے کے لئے مشرقی پاکستان کی صورتِحال سے فائدہ اُٹھا کر مشرقیپاکستان میں سازش کے ذریعے اپنی فوجیں بھیج دیں اور مشرقی پاکستان میں پاکستان کے خلاف جنگ کا آغاز شروع کردیاپاکستان کی فوج نے بھارت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا لیکن مغربی پاکستان اور مشرقی پاکستان میں ایک ہزار میل کا فاصلہ تھا جس کیوجہ سے پاکستان اپنی فوج کو وسائل نہ پنہچا سکا اور بھارت کی سازش کامیاب ہوگئی اور اِس سازش کے نتیجہ میں پاکستان دوٹکڑے ہوگیا اور اِس طرح دُنیا میں ایک نیا ملک بنگلہ دیش کی صورت میں وجود میں آیا۔ اِس نازک اور مشکل مرحلے پر چیننے ایک بار پھر اپنی دوست کا حق نبھایا اور پاکستان کی بھرپور مدد کی جس کی وجہ سے پاکستان اور چین ایک دوسرے کےاور قریب آگئے۔

 چین امریکہ تعلقات کی بہتری میں پاکستان کا کردار


جب 1949 میں چین آزاد ہوا تو امریکہ اور چین کے تعلقات اتنے بہتر نہیں تھے بلکہ کشیدگی کی طرف مائل تھے لیکن پاکستانکی کئی سالوں پر مشتمل مسلسل کوشش اور مخلصانہ جدوجہد کے نتیجہ میں اُس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نےچین کا دورہ کیا اور اس طرح امریکہ اور چین کے تعلقات بہتر ہونا شروع ہوگئے اور اِس طرح چین کا عالمی برادری میں ایکمقام پیدا ہونا شروع ہوگیا۔ اور چین کو اقوام متحدہ کی مستقل رکنیت مل گئی اور چین کو اقوام متحدہ میں ویٹو پاور کا حق مل گیا۔پاکستان کے اِس کردار کی وجہ سے چین کی نظر میں پاکستان کا وقار بہت بلند ہو گیا اور چین اور پاکستان کی دوستی مثالی اورکوہ ہمالیہ سے بھی بلند سمجھی جانے لگی اور پاکستان اور چین کی دوستی دُنیا کی نظروں میں ایک قابل رشک دوستی بن گئی۔

اسلحہ سازی اور اٹیم بم اور چین


چین نے ہر موقع اور ہر مرحلے پر پاکستان کے ساتھ اپنی دوستی کو نبھایا ہے۔ چین نے آٹیم بم بنانے میں پاکستان کی دُنیا کیتمام مخالفتوں کے باوجود مدد کی اس کے علاوہ چین نے پاکستان میں ٹینک سازی اور طیارہ سازی میں بھرپور مدد کی جس کیوجہ سے پاکستان کی اسلحہ سازی کی صنعت نے بہت ترقی کی اس کے علاوہ چین پاکستان کی مختلف دفاعی منصوبہ جات میںبھرپور مدد کر رہا ہے جس کی وجہ سے چین اور پاکستان کے تعلقات میں دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی ہو رہی ہے۔

توانائی اور دیگر منصوبہ جات میں چین کی مدد


 چین توانائی اور دیگر بہت سے منصوبہ جات میں جن میں سینڈک کا منصوبہ، گوادر پورٹ کا منصوبہ پاکستان کو ریلوے انجنکی فراہمی اور دیگر بے شمار ایسے منصوبہ جات ہیں جن میں پاکستان کو چین کی بھرپور مدد حاصل ہے جس سے پاکستان اورچین دوستی کے ایک ایسے رشتے میں بندھے ہوئے ہیں جس کی شاید ہی پوری دُنیا میں کوئی مثال موجود ہو۔

پاک چین دوستی کوہ ہمالیہ سے بھی بلند


پاکستان اور چین کی دوستی کو کوہ ہمالیہ سے بھی بلند سمجھا جاتا ہے کیونکہ دونوں ملکوں کی طرف سے اِس دوستی کو اِسمقام تک پہنچانے میں جس سچائی، مخلصی اور محبت کا مظاہرہ کیا گیا ہے شاید ہی اِس کی پوری دُنیا میں کوئی مثآل ہو اللہ تعالیٰپاکستان اور چین کی دوستی کو ہمیشہ ا۔سی طرح قائم و دائم رکھے اور کسی دشمن کی نظر نہ لگے کیونکہ پاکستان اور چین کےدشمن اِس مثالی دوستی کو حسد کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

پاک چین دوستی میں دراڑ کی سازش


پاکستان اور چین دوستی کے ایک ایسے بندھن میں بندھے ہوئے ہیں جس کا ختم کرنا آسان نہیں ہے لیکن حاسدوں کی یہ کوشش ہے کی کسی طرح اس دوستی کے درمیان دراڑ ڈالی جائے اور ہمارے سیاستدان اور حکمران اپنی نااہلی کی وجہ سے دشمنوں اور حاسدوں کو بھرپور موقع فراہم کررہے ہیں کہ اس دوستی کے رشتےمیں دراڑ پڑ جائے۔ سیاستدانوں اور حکمرانوں کو پاک چین دوستی کو اپنی گندی سیاست کی نظر نہیں کرنا چاہئے اور ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔ اگر چین جیسا با اعتبار ملک بھی ہم سے ناراض ہوگیا تو پھر پاکستان دُنیا میں باکل تنہا رہ جائے گا اور پھر پاکستان کا خدا ہی حافظ ہو گا۔ حکمرانوں اور سیاستدانوں سے انتہائی ادب اور احترام سے گزارش ہے کہ وہ پاک چین دوستی کو سیاست کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ کیونکہ ہمارے حکمران اور سیاستدان غلطیوں پر غلطیاں کئے جاتے ہیں اور اپنی غلطیوں سے کوئی سبق حاصل نہیں کرتے یا تو اقتدار بچانے کے چکر میں رہتے ہیں یا اقتدار حاصل کرنا اپنے دین اور ایمان کا حصہ سمجھتے ہیں پاکستان کے اور اُس کی بھلائی کے بارے میں سوچنا کفر سمجھتے ہیں۔

دُعا


ساری پاکستانی قوم کو مل کر پاک چین دوستی کی سلامتی کے لئے تمام مساجد میں اور بالخصوص جمعۃ المبارک کی نماز میں پاک چین دوستی کی سلامتی کی اجتماعی دعاء کریں کیونکہ حکمرانوں اورسیاستدانوں سے کسی بھلائی اور خیر کی کوئی توقع نہیں ہے۔

         سید محمد تحسین عابدی



Monday, 27 October 2014

Islam is a religion of peace and love: stehseenabidi.blogspots.com جھوٹ جھوٹ دراصل سچ کا ...

Islam is a religion of peace and love: stehseenabidi.blogspots.com
 جھوٹ
جھوٹ دراصل سچ کا ...
: stehseenabidi.blogspots.com  جھوٹ جھوٹ دراصل سچ کا متضاد ہے اور جھوٹ کے اصل معنی ہیں کسی کو جان بوجھ کر دھوکا دینا اور غلط بیانی س...






 جھوٹ


جھوٹ دراصل سچ کا متضاد ہے اور جھوٹ کے اصل معنی ہیں کسی کو جان بوجھ کر دھوکا دینا اور غلط بیانی سے کام لینا ہے۔ کسی بات کو غلط انداز میں بیان کرنا بھی جھوٹ کے زمرے میں آتا ہے۔ سچ میں کوئی شخص صحیح بات بیان کررہا ہوتا ہے لیکن جھوٹ میں سچ کے بالکل اسکے متضاد یعنی اُلٹ بات یعنی غلط بات بیان کررہا ہوتا ہے۔ جھوٹ کا ایک افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس میں سچائی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اور بات کو مکرو فریب سے اِس طرح بیان کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ دوسرے لوگ اس بات سے دھوکہ کھا جائیں اور اُس جھوٹ کو سچ سمھجھنے لگ جائیں۔ جھوٹ بعض صورتوں میں منافقت کے زمرے میں بھی آتا ہے اور اکثر و بیشتر جھوٹے شخص کو منافق سمجھا جاسکتا ہے کیونکہ بعض اوقات جھوٹا شخص اپنی مطلب براری کے لئے دوسروں سے جھوٹ بولتا ہے جو لیکن اپنے مقصد اور مطلب کو اپنے دل کی گہرائی میں چھپا کر رکھتا ہے اور جھوٹ کا یہ پہلو منافقت میں شمار ہوتا ہے دراصل جھوٹ اور منافقت میں چولی دامن کا ساتھ ہے کیونکہ سچ میں منافقت نہیں پائی جاتی بلکہ سچ منافقت سے کوسوں دور ہوتا ہے۔

 دُنیا میں جھوٹ کا آغاز


دُنیا میں جھوٹ کا آغاز کب ہوا اور کون سا پہلا انسان تھا جس نے جھوٹ بولا اِس سلسلے میں تاریخ بالکل خاموش ہے بعض لوگوں کا نکتہ نظر ہے کہ جب شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو اور اماں حوا کو بہکایا کہ تم فلاں درخت کا پھل کھا لو گے تو تمھاری آنکھیں روشن ہو جائیں گی  اور تم سب چیزوں کو دیکھ سکو گے تو شیطان کا بس حضرت آدم علیہ السلام پر تو نہ چلا لیکن اُس نے اماں حوا کے دِل میں وسوسا ڈالا کہ اس درخت (جس کے قیریب بھی جانے سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا تھا) کے پھل کے کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ تم دونوں کی آنکھیں کُھل جائیں گئیں اور تم دونوں سب کچھ دیکھ سکو گے۔ شیطان کی اِس بات کو سن کر اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا کہ اِس درخت کے پھل کھانے سے کچھ نہیں ہوگا بلکہ ہماری آنکھیں کُھل جائیں گی اور ہم سب کچھ دیکھ سکیں گے۔ دراصل اماں حوا نے اللہ تعا لیٰ کے اِس حکم کو نظر انداز کردیا کہ درخت کے قریب نہ جانا اور اُس کا پھل نہ کھانا ورنہ گمراہ ہوجائو گے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں اماں حوا نے حضرت آدم علیہ السلام سے غلط بیانی سے کام لیا اور ان کے خیال میں یہ بات جھوٹ کے زمرے میں شمار ہوتی ہے لیکن کچھ لوگوں کی رائے مختلف ہے اُن کی رائے کے مطابق اماں حوا اُس وقت اللہ کے حکم کو بھول گئیں اور انہوں نے شیطان کی بات کو سچ سمجھا اوراُس کی بات حضرت آ دم علیہ السللام کو بیان کردی اُن افراد کی رائے کے مطابق یہ جھوٹ نہیں تھا یہ ترک اولیٰ تھا یعنی غلطی تھی اور اور یہ ترکِ اولیٰ حضرت آدم علیہ السلام سے بھی سرزد ہوا جس کی انہوں نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور اللہ نے انہیں معاف فرما دیا۔ دونوں نکتہ نظر قارئین کے سامنے ہیں وہ خود فیصلہ کرسکتے ہیں کہ کون سا نقطہ نظر صحیح ہے اور کونسا غلط ۔ پہلا جھوٹ کب بولا گیا تاریخ اِس سلسلے میں بالکل خاموش ہے۔

 جھوٹ کیوں بولا جاتا ہے؟


لوگ جھوٹ کیوں بولتے ہیں اس کی کچھ وجوہات ہیں مثلا جھوٹ بعض اوقات لوگ اپنے کسی غلط کام کو چھپانے کے لئے بولتے ہیں کیونکہ اُن کو ڈر ہوتا ہے کہ اگر اُن کا غلط کام ظاہر ہوگیا اور غلط کام کی سچائی سامنے آگئی تو اِس صورت میں لوگوں میں اُن کی عزت نہیں رہے گی۔ بعض اوقات لوگ اپنی شان و شوکت قائم رکھنے کے لئے بھی جھوٹ بولتے ہیں اور مثال کے طور پر اُن کے پاس دولت نہیں ہوتی، گاڑی نہیں ہوتی، بنگلہ نہیں ہوتا اور بنک بیلنس نہیں ہوتا لیکن لوگ اپنے دوستوں یاروں اور اپنی گرل فرینڈ کو متاثر کرنے کے لئے جھوٹ بولتے ہیں کہ اُن کے پاس دولت، گاڑی، بنگلہ اور بنک بیلنس سب کچھ موجود ہے۔ بعض اوقات لوگ اپنی عادت کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور وہ جھوٹ بولتے ہیں اِس قسم کے جھوٹ کی لوگوں کوعادت پڑ جاتی ہے اور بے اختیار اِس قسم کا جھوٹ بولا جاتا ہے۔ ایسے لوگ اپنی عادت سے مجبور ہو کر جھوٹ بولتے ہیں۔ اس قسم کا جھوٹ اکثر ٹی وی ٹاک شوز میں بولا جاتا ہے جیسا کہ سیاسی جلسوں میں حاضرین کی تعداد کو کم یا زیادہ کرکے بتایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے افسوسناک پہلویہ ہے کہ سب سمجھ رہے ہوتے ہیں کہ جھوٹ بولا جارہا ہے لیکن کسی کی جرات نہیں ہوتی کہ کوئی کپھلے لفظوں میں کہے کہ اللہ کے بندوں جھوٹ نہ بولو۔ جھوٹ کی اور بھی بے شمار قسمیں ہیں جتنا سوچتے جائیں اتنا ہی جھوٹ ملتا جائے گا۔

 جھوٹ کے بارے میں رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کا واقع 


اللہ تعالیٰ نے جھوٹ کو کبیرہ گناہ قرار دیا ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں ایک شخص آپ کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ میں اسلام لانا چاہتا ہوں لیکن مجھ میں بہت سی برائیاں ہیں جنہیں میں چھوڑ نہیں سکتا آپ مجھے فرمائیے کہ میں کوئی ایک برائی چھوڑ دوں تو وہ میں چھوڑ دوں گا آپ نے اُس شخص سے فرمایا کہ جھوٹ بولنا چھوڑ دو اُس شخص نے وعدہ کرلیا اور جھوٹ بولنا چھوڑدیا تو اِس جھوٹ بولنے کے چھوڑنے کے سبب اُس کی تمام برائیاں چُھٹ گئیں۔ اِس سے یہ سبق ملتا ہے کہ جھوٹ بولنا کتنی بڑی برائی ہے۔

 جھوٹ کو سب برا سمجھتے ہیں لیکن بولتے ہیں


جھوٹ کو سب برا سمجھتے ہیں لیکن افسوسناک صورتِحال یہ ہے کہ جھوٹ سب بولتے ہیں اور جو دلچسپ بات یہ ہے کہ جو جھوٹ بولتے ہیں وہ بھی جھوٹ کو برا سمجھتے ہیں ذرا سب دل پر ہاتھ رکھ کر اللہ تعالیٰ کو یاد کریں اور ایک لمحے کے لئے سوچیں کیا وہ جھوٹ نہیں بولتے آج کا سب سے کڑوا سچ یہی ہے۔

   
       سید
 محمد تحسین 
عابدی