Friday, 5 December 2014

اللہ کے وسیلے


اللہ کے وسیلے


وسیلہ سے مراد ہے ذریعہ ۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا کو پیدا کیا اور ہر چیز کو ایک دوسرے کا وسیلہ بنایا۔ کائنات کا پورا نظام وسیلوں پر قائم ہے اگر اللہ تعالیٰ نے وسیلے پیدا نہیں کئے ہوتے تو اس کائنات کا پورا نظام درہم برہم ہوجاتا اور کائنات قائم ہی نیہں رہ سکتی تھی۔

حواسِ خمسہ کے وسیلے


اللہ نے انسان کو پیدا کیا اور اسے آنکھوں کا وسیلہ عطاء کیا تاکہ وہ دُنیا کو دیکھ سکے، اسے کانوں کا وسیلہ عطاء کیا تاکہ وہ سن سکے اسے زبان کا وسیلہ عطاء کیا تاکہ وہ بول سکے اور چیزوں کا ذائقہ محسوس کرسکے۔ اسے ہاتھوں کا وسیلہ عطاء کیا تاکہ وہ چھو سکے اور ہاتھوں سے اپنا کام کاج کرسکے اور اسے ناک کا وسیلہ عطاء کیا تاکہ وہ سونگھ سکے اور خوشبو اور بدبو میں تمیز کرسکے۔ یہ وہ وسیلے ہیں جنھیں حواسِ خمسہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اگر یہ وسیلے نہ ہوں تو انسان کا وجود ہی باقی نہ رہے۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قائم کردہ اس ںظام کائنات میں وسیلوں کی کتنی اہمیت ہے اگر وسیلے نہ ہوں تو کسی چیز کا وجود باقی رہنا ممکن ہی نہیں ہے۔

وسیلے


اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام، بارہ امام علیہ السلام، اولیاء، صوفیاء، قلندروں اور نیک اور پاکیزہ لوگوں کو اس دُنیا کے لوگوں کی ہدایت کے لئے وسیلہ بنا کر بھیجا تاکہ وہ دنیا کے لوگوں کو ہدایت کا سیدھا راستہ یعنی صراطِ مستقیم دکھا سکیں ان سب نیک اور پاکیزہ لوگوں نے بے شمار قربانیاں دے کر اور ہر قسم کی مشکلات کا صبر و شکر کے ساتھ سامنا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا پیغام احسن طریقے سے لوگوں تک پہنچایا اور خدا تعالیٰ کے صحیح وسیلے ہونے کا مکمل حق ادا کیا یہ اللہ کے چُنے ہوئے اور منتخب بندے ہیں اورخدا اور انسانوں کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا کے لوگوں سے کبھی براہ راست یعنی ڈائریکٹ بات نہیں کی اُس نے اپنے منتخب کئےہوئے ہر بندے کو اس نے جو صلاحیت عطاء کی اس کے مطابق علم عطاء کیا اور اسے جو علم اور صلاحیت اللہ نے عطاء کی اُس کے مطابق اس سے راہِ ہدایت کا کام لیا اللہ کے ان چُنے ہوئے اور منتخب کردہ بندوں اور دنُیا  کے انسانوں میں بہت فرق ہوتا ہے وہ دنیا کے عام انسانوں کی طرح نہیں ہوتے یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ ان پاکیزہ ہستیوں کی بات توجہ سے سنتا ہے اور اللہ کے چُنے ہوئے اور منتخب بندے کو اللہ تعالیٰ نے جو علم اور صلاحیت عطاء کی ہے اس کے مطابق اس کو درجہ بھی عطاء کیا ہے۔ جس کو اللہ نے جتنا ذیادہ علم اور صلاحیت  اور عمل عطاء کیا ہے اس کا درجہ بھی اس کے مطابق کم یا ذیادہ ہے۔

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم


حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ تعا لیٰ سے رابطے اور اللہ تک پہنچنے کا سب سے بڑا ذریعہ اور وسیلہ ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو رحمت اللعالمین یعنی تمام جہانوں کے لئے رحمت قرار دیا ہے۔ آپ اللہ کے آخری رسول اور نبی ہیں لیکن آپ کا درجہ تمام انبیاء سے بلند ہے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا حبیب فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم پر اپنی آخری آسمانی کتاب قرآنِ مجید نازل فرمائی اور اللہ نے آپ کے وسیلے اور ذریعے سے دنیا میں دین اسلام پھیلایا آور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے لوگوں کو دینِ اسلام کی تعلیمات حاصل ہوئی اور آج قرآنِ پاک ایک بہت بڑے وسیلے کی صورت میں موجود سے جس کے ذریعے دنیا میں ہدایت کا نور پھیل رہا ہے۔ روزَ قیامت جب تمام انبیاء علیہ السلام کی اُمتیں میدانِ حشر میں جزا اور سزا کے کئے جمع ہونگی گی تو حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم مسلمانوں کی شفاعت اور بخشش کا وسیلہ بنیں گے اور آپ صلی علیہ والہ وسلم کے وسیلے سے آج بھی جو دُعا دِل اور صحیح نیت کے ساتھ مانگی جائے وہ اللہ تعالیٰ قبول فرماتا ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ اورعام انسانوں کے درمیان رابطے کا سب سے بڑا وسیلہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔

اہلبیت علیہ السلام



اللہ تعالیٰ تک ہہچنے کا دوسرا بڑا وسیلہ اہلبیت علیہ السلام ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک ان سے منسلک رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے۔ ایک قرآنِ مجید اور دوسرے میرے اہلبیت علیہ السلام ۔ اہلبیت علیہ السلام میں حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت امام حسن علیہ السلام اور حضرت امام حسین علیہ السلام  شامل ہیں کیونکہ مباہلہ کے اہم ترین موقع پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ رسول کے اہلیبت علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے موجود تھے۔ اور جب آیہ تطہیر (جس میں اہلبیت کو ہر قسم کے رجس سے پاک قرار دیا گیا) نازل ہوئی تو حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، حضرت حسن علیہ السلام اور حضرت حسین علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چادر کے نیچے موجود تھے۔ اہلبیت اللہ تعالیٰ کی منتخب کی ہوئی مقدس ہستیاں ہیں جن کو ہر قسم کے رجس سے پاک قرار دیا گیا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ تک رابطے کا حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے بعد سب سے بڑا وسیلہ ہیں۔ ان مقدس ہستیوں نے اسلام کی خاطر اپنی جان اور اپنا مال ہر چیز قربان کردیا اور اسلام پر آنچ نہیں آنے دی یہی وجہ ہے کے ان کے وسیلے سے لوگوں کی دعائیں اللہ تعالی کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہیں۔

بارہ امام علیہ السلام


اللہ تعالیٰ تعالی تک پہچنے اور اللہ کے قریب ہونے کا اہم ترین وسیلہ بارہ امام علیہ السلام ہیں۔ اِن میں حضرت امام علی علیہ السلام، حضرت امام حسن علیہ السلام، حضرت امام حسین علیہ السلام، حضرت امام زین العابدین علیہ السلام، حضرت امام محمد باقرعلیہ السلام، حضرت امام جعفرِ صادق علیہ السلام، حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام، حضرت امام علی رضا علیہ السلام، حضرت امام علی نقی علیہ السلام، حضرت جواد تقی علیہ السلام، حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام اور حضرت امام مہدی علیہ السلام شامل ہیں، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کے میرے بعد بارہ امام ہوں گے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہمارا پہلا بھی محمد ہے، ہمارا درمیانی بھی محمد ہے، ہمارا آخری بھی محمد ہے اور ہمارے سب کے سب محمد ہیں۔ یہ بارہ امام علیہ السلام اللہ تک پہچنے کا اہم ترین وسیلہ ہیں۔ اللہ اِن کے وسیلے سے دعائیں قبول فرماتا ہے۔


حضرت غازی عباس علیہ السلام اور شہیدان کربلا


میدانِ کربلا شہنشاہ وفا حضرت غازی عباسِ علمدار علیہ السلام نے جانثاری اور وفاداری کا وہ کردار پیش کیا جس کی اس دنیا کی تاریخ میں مثال نہیں مل سکتی  اسی وجہ سے آپ کو باب الحواج بھی کہا جاتا ہے یعنی بے آسرا لوگوں کی حاجتیں آپ کے وسیلے سے پوری ہوتی ہیں آپ عام انسانوں اور اللہ کے درمیان بہت بڑا وسیلہ ہیں ۔ اسی طرح میدان کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے بہتر ساتھیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے اللہ تعالیٰ کی نظر میں بہت بڑا مقام حاصل کرلیا اور شیہدان کربلا بھی اللہ کا وسیلہ ہیں۔

انبیاء علیہ السلام


اللہ تعالیٰ نے دنیا میں انسانوں کو سیدھا راستہ دکھانے کے لئے، لوگوں کوگمراہی سے بچانے کے لئے اور اللہ کا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام بھیجے۔ ان انبیاء نے ہر قسم کی قربانیاں دے کر اللہ کا پیغام لوگوں تک نہایت احسن طریقے سے اور نہایت ایمانداری سے پہنچایا اللہ تعالیٰ نے ان رسولوں، پیغمبروں اور انبیاء علیہ السلام کو اپنا پیغام لوگوں تک پہنچانے کے لئے اپنا وسیلہ بنایا تاکہ لوگوں کو ہدایت ملے اور وہ گمراہی سے نجات پا سکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کبھی بھی نہیں چاہتا کہ لوگ دنیا میں گمراہی کا راستہ اختیار کریں لیکن اللہ نے لوگوں کو عمل کرنے کی آزادی دی کہ وہ راستے کا انتخاب اپنی عقل اور سوچ سے کریں اور اُس نے یہ فرمایا کہ تم کو عمل کی آزادی ہے اگر اچھا عمل کرو گے تو اُس کے نتیجے میں جنت ملے گی اور اگر غلط عمل کرو کے تو اُس کے نتیجے میں دوزخ ملے گی لیکن اُس نے انسانوں کی ہدایت کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام دنیا میں بھیجے اورانہیں اپنا وسیلہ اور ذریعہ بنایا اور ہر نبی کی اُمت کو اُن کے نبی کے ذریعے ہی پیغامِ ہدایت پہنچا۔ اِن میں حضرت آدم علیہ السلام سلسلہ ہدایت کے پہلے نبی ہیں۔ اِس کے علاوہ حضرت نوح علیہ السلام، حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت لوط علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام، حضرت اسحاق عیلہ السلام، حضرت یعقوب علیہ السلام، حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت ہارون علیہ السلام، حضرت داٶد علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام، حضرت زکریا علیہ السلام حضرت یحییٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے جلیل القدر اور مقدس انبیاء شامل ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو اِن سب انبیاء علیہ السلام کے سردار ہیں سب سے آخر میں انسانوں کی ہدایت کے لئے اِس دنیا میں تشریف لائے اور اِن انبیاء کے بعد سلسلہ امامت کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ سب انبیاء علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے اور منتخب وسیلے ہیں جن کی لائی ہوئی سچی تعلیمات پر عمل کرکے اللہ کی قربت حاصل کی جاسکتی ہے۔

اولیاء، صوفیاء، قلندر اور نیک لوگ


اللہ تعالیٰ نے انبیاء علیہ السلام اور بارہ آئمہ علیہ السلام کے علاوہ اس دنیا کو راہِ ہدایت اور سیدھا راستہ دکھانے کے لئے اولیاء، صوفیا۔ قلندروں اور نیک لوگوں کو بطور وسیلہ بنا کر اس دنیا میں بھیجا تاکہ وہ دنیا کے بھٹکے ہوئے اور گمراہ لوگوں کو نیکی اور سچائی کا سیدھا راستہ دکھا سکیں اور لوگوں کو سچائی کی طرف بلائیں۔ ان نیک اور لوگوں کی آمد کا سلسلہ آج بھی اس دنیا میں جاری ہے اگرچہ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے اور دنیا دار لوگ ان لوگوں کا ہر وقت مذاق آڑاتے نظر آتے ہیں اور انہیں پاگل اور مجنوں سمجھا جاتا ہے لیکن اللہ کے یہ نیک وسیلے اپنا کام تندہی ، محبت، خلوص اور سچی لگن کے ساتھ سرانجام دینے میں مصروفِ عمل نظر آتے ہیں اور یہ تمام مشکلات اور تکالیف کا سامنا اللہ کی طرف سے عطاء کئے گئے صبر و استقامت کے ساتھ کرتے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اولیاء، صوفیاء، قلندروں اور نیک لوگوں کی بات توجہ سے سنتا ہے۔

اللہ کے وسیلوں اور عام انسانوں میں فرق


اللہ تعالیٰ نے لوگوں کی ہدایت کے لئے جو وسیلے انبیاء، علیہ السلام، بارہ امام علیہ السلام ، اولیاء، صوفیاء، قلندروں اور نیک لوگوں کی صورت میں اس دنیا میں بھیجے اُن میں اور دُنیا کے عام انسانوں میں زمین آسمان کا فرق ہے کیونکہ انبیاء، علیہ السلام، بارہ امام علیہ السلام، اولیاء، صوفیاء، قلندروں اور نیک لوگوں کو اللہ تعالیٰ نے منتخب کیا اور چُنا ہوتا ہے اس وجہ سے اِن سب کا اِن کے درجات کے مطابق اللہ سے رابطہ ہوتا ہے کیونکہ یہ اللہ کے منتخب کردہ اور چنے ہوئے بندے ہوتے ہیں اور یہ اللہ کی طرف سے دی گئی مختلف آزمائشوں کا سامنا االلہ کی طرف سے عطاء کردہ صلاحیت کے مطابق خندہ پیشانی سے کرتے ہیں اس لئے اِس لئے اِن سے غلطی کا امکان نہیں ہوتا اور یہ اللہ کے وسیلے ہر صورت میں اللہ کا ہی راستہ اپناتے ہیں انہوں نے اللہ کی طرف سے دی گئی آزمائشوں کا سامنا اپنے اپنی دنیاوی خواہشات اور اپنے نفس پر قابو پا کر کیا ہوتا ہے یہی وجہ ہے یہ اللہ کے بندے ہوتے ہیں دنیا کے بندے نہیں ہوتے یہ دنیا کے پیچھے نہیں بھاگتے بلکہ دنیا ان کے پیچھے بھاگتی ہے۔
جبکہ عام انسانوں کے چُنے ہوئے اور منتخب بندے اپنے نفس اور خواہشات کے غلام ہوتے ہیں دنیا کی کشش اور رنگینیاں اِن کو اپنی طرف کھنچتی ہے اور یہ حصول دنیا کے چکر میں غلطیوں پر غلطیاں اور مسلسل گناہ پر گناہ کئے چلے جاتے ہیں اور اور اِن کی غلطیوں اور گناہوں کے طفیل یہ دنیا جہنم بن جاتی ہے اور نیک اور پِسے ہوئے طبقے کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے یہ سب کچھ دیکھتے ہیں لیکن انسانوں اور عام آدمی کی بھلائی کے لئے کچھ نہیں کرتے بلکہ دعویٰ یہ کرتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں۔ یہ لوگ اپنے دماغ سے نہیں اپنے پیٹ سے سوچتے ہیں۔ دنیا کے کے لوگ انہیں چُنتے ہیں اس لئے یہ دنیا کے لوگوں جیسے ہی ہوتے ہیں جبکہ اللہ اپنے وسیلوں کو خود چنتا اور منتخب کرتا ہے اس لئے اللہ کے یہ وسیلے دنیا کے لوگوں جیسے نہیں ہوتے۔ جو لوگ اللہ کے وسیلوں کو اپنے جیسا سمجھتے ہیں وہ سخت نادان ہیں کیونکہ وہ اللہ کے وسیلوں سے انکار شیطان کی پیروی میں کرتے ہیں کیونکہ اللہ کے وسیلے سے انکار سب سے پہلے شیطان نے ہی کیا تھا۔ 

شیطان کا اللہ کے وسیلے سے انکار


جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا اور سب کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو تو سب نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کیا لیکن ابلیس (شیطان) جو کہ جنوں میں سے تھا نے سجدہ نہیں کیا اور غرور اور تکبر میں اللہ کے حکم کی نافرمانی کی دراصل شیطان چاہتا تھا کہ وہ اللہ سے براہ راست رابطہ رکھے کیونکہ اُس نے زمین کے چپے چپے پر اللہ کو سجدہ کیا تھا اور اللہ کے سب سے زیادہ نزدیک تھا لیکن جب شیطان نے دیکھا کہ اللہ حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کروا کر حضرت آدم عیلہ السلام کو اللہ اور اُس (شیطان) کے درمیان رابطہ اور وسیلہ بنانا چاہتا ہے تو اس نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کردیا یعنی اُس نے اللہ کے وسیلے کو ماننے سے انکار کردیا کیونکہ وہ اللہ سے براہ راست یعنی ڈائریکٹ رابطہ رکھنا چاہتا تھا۔ اللہ نے ابلیس کے وسیلے کے ماننے سے انکار پر اُس کی ساری عبادت کو زیرو کردیا اور اپنی بارگاہ سے نکال دیا۔ یہی وجہ ہے جو لوگ اللہ کے وسیلوں کو ماننے سے انکار کرتے ہیں وہ گویا شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ولایتِ حضرت علی علیہ السلام سے انکار اسی طرح ہے جس طرح شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا۔

ایک غلط فہمی کا ازالہ


لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کی اللہ سے براہ راست اور ڈائریکٹ رابطہ رکھنا ہی صحیح ہے بظاہر تو یہ بہت پر کشش بات لگتی ہیں لیکن اللہ نے کبھی عام انسانوں سے براہ راست رابطہ نہیں کیا اس نے جب بھی عام انسانوں سے رابطہ کیا اپنے منتخب کردہ وسیلوں کے ذریعے ہی رابطہ کیا تو عام انسانوں کا بھی فرض ہے کے وہ اللہ کے وسیلوں کے ذریعے ہی اللہ سے رابطہ کریں کیونکہ اللہ اپنے وسیلوں کی بات سنتا ہے اور ظاہر ہے جو لوگ اللہ کے قریب ہونگے اللہ ان ہی کی بات توجہ سے سنے گا اور اللہ اپنے نیک اور سچے وسیلوں کی بات ماننے گا اب بات ساری آپ کی نیت کی ہے (کیونکہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے) کہ آپ اللہ کے اِن وسیلوں کو کیا سمجھ کر مانگ رہے ہیں کیا آپ ان کو اللہ کا شریک سمجھ کر مانگ رہے ہیں تو بالکل آپ شرک کررہے ہیں لیکن اگر آپ اِن کو اللہ کا نیک اور پاکیزہ بندہ سمجھ کر مانگ رہے ہیں تو آپ اللہ کی قربت کے لئے ان نیک لوگوں کو اپنا وسیلہ بنا رہے ہیں کیونکہ اللہ انے اپنے منتخب اور نیک بندوں کو اُن کے درجات کے مطابق قوت اور طاقت عطاء کی ہے کہ وہ لوگوں کی مدد کرسکیں کیونکہ اللہ تعالیٰ سے ان نیک اور پاکیزہ لوگوں کا براہ راست رابطہ ہوتا ہے ان میں سے کوئی بھی اللہ کا شریک نہیں ہے لیکن یہ نیک اور پاکیزہ لوگ اللہ کے اِذن سے دکھی انسانیت کی مدد کرتے ہیں کیونکہ انسانوں کے منتخب اور چُنے ہوئے لوگوں نے اِس دنیا کو جہنم بنا دیا ہوتا ہے۔ اگر اللہ اپنے یہ وسیلے پیدا نہ کرتا ےتو شاید اس دنیا کا وجود کب کا ختم ہو چکا ہوتا۔ یہی وہ نازک اور باریک نکتہ ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ آپ اگر آللہ کے وسیلوں کو خدا سمجھ کر یا خدا کا شریک سمجھ کر مانگ رہے ہیں تو اِس بات میں کوئی شک نہیں  کہ آپ شرک کررہے ہیں لیکن اگر آپ اللہ تعالیٰ کے اَن وسیلوں کو اللہ کا نیک اور پاکیزہ بندہ جس کو مدد کرنے کی طاقت اللہ کی طرف سے ہی ملی ہے تو آپ بالکل صحیح اور سیدھے راستے پر ہیں۔  

ہر انسان اللہ کا وسیلہ بن سکتا ہے


اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اے لوگوں کیا تم سمجھتے ہو کہ تم آسانی سے جنت میں چلے جائو گے تو ابھی تو اللہ نے تمہیں تمھاری جان، تمھارے مال اور تمھاری اولاد سے تمہیں نہیں آزمایا۔ تواللہ کا وسیلہ بننے کے لئے اور اللہ سے براہ راست اور ڈائریکٹ رابطہ رکھنے کے لئے  کیا آپ انبیاء علیہ السلام بارہ امام عیلہ السلام ، اولیاء، صوفیاء، قلندروں اور نیک لوگوں کی طرح اپنے جان و مال اپنی اولاد کی قربانی دینے کو تیار ہیں؟ کیا آپ حضرت امام حسین علیہ السلام اور اُن کے عظیم ساتھیوں کی طرح قربان ہونے کو تیار ہیں؟ کیا آپ سچائی کو اپنانے کو تیار ہیں؟ کیا آپ جھوٹ چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ ظلم و بربریت، قتل غارت گری، ناانصافی چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ رشوت، سفارش،ذخیرہ اندوزی،  منافع خوری، دولت پرستی اور دنیا داری چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ ایک دوسرے کو کافر کافر کہنے اور لعنت لعنت کرنا چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ نفرت کی جگہ ایک دوسرے کو محبت اور امن کا پیغام دینے کو تیار ہیں؟ کیا آپ کمزور لوگوں کو غلام سمجھنے کی بجائے انہیں آزادی دینے کو تیار ہیں۔ کیا آپ لوٹ مار چھوڑنے کو تیار ہیں؟ کیا آپ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط کہنے کو تیار ہیں؟ اگر آپ اِن سب آزمائشوں سے گزر سکتے ہیں تو پھر اللہ کے وسیلے کا درجہ حاصل کرسکتے ہیں کیونکہ آللہ سے براہ راست رابطہ رکھنا تو بہت دُور کی بات ہے آپ اللہ کے وسیلوں کے پاس بھی نہیں پھٹک سکتے آپ کو تو ذرا سی تکلیف اور دُکھ پہنچتا ہے تو آپ چیخنا چلانا اور شور مچانا شروع کردتیے ہیں۔ اللہ کے وسیلوں نے یہ مقام ایسے ہی حاصل نہیں کیا ہے انہوں نے بیشمار قربانیوں اور مشکلات اور دُکھوں کے بعد اپنے اپنے درجے کے مطابق یہ مقام حاصل کیا ہے اللہ کے وسیلے بالکل بھی آپ کے جیسے نہیں ہیں اُن میں اور آپ میں زمین اور آسمان کا فرق ہے اگر آپ اِس دنیا کو جنت بنانا چاہتے ہیں تو اللہ کے وسیلوں کی پیروی کریں اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت پر ایمان لائیں جس کا اعلان حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کے حکم سے غدیر و قم کے مقام پر کیا تھا اور اگر آپ اسی طرح اِس دنیا کو جہنم بنائے رکھنا چاہتے ہیں تو اپنے جیسے لوگ منتخب کرتے رہیں اور دنیا کو جہنم بنائے رکھیں۔ یاد رکھیں اگر آپ اللہ کے وسیلوں کی پیروی کرنے لگے اور ان کے قول و عمل کو مشعل راہ بنانے میں کامیاب ہوگئے تو آپ کو اپنے منتخب کردہ اور چُنے ہوئے نفس کے پجاریوں اور اپنی خواہشات کے غلاموں کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اور یہ دنیا سیدھے اور سچے راستے کی طرف گامزن ہوجائے گی اور شیطان شکست سے دوچار ہوگا۔ شیطان آپ پر غالب صرف اس وجہ سے ہوتا ہے کہ آپ گناہوں کی لذت کی طرف تیزی کے ساتھ کھنچتے ہیں جبکہ نیکی اور سچائی کے لئے آپ کو اللہ کی آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے جس سے گھبرا کر آپ شیطان کے جال میں پھنس جاتے ہیں اور گناہوں کی دلدل میں پھنس کر گناہ پر گناہ کرتے چلے جاتے ہیں اور پھر آپ شیطان کی طرح آپ اللہ کو سجدے پر سجدے اور نمازوں پر نمازیں پڑھ کر دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اللہ آپ کی نیت اور آپ کی عبادت کی سچائی کو بخوبی جانتا ہے یاد رکھو اگر آپ کی نیت اور آپ کا عمل ٹھیک نہیں ہوا تو آپ کی عبادت شیطان کی عبادت کی طرح زیرو ہوجائے گی کیونکہ  اللہ تعالیٰ آپ کے دلوں کے حال سے اچھی طرح واقف ہے

جے میں سچی تے وکھری گل دساں

میری گل نوں کان لا کے سُن لیو

رب نوں اپنے لوں لوں وچ بسا لو

عبادت دی پھر کوئی لوڑ نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟

میری گل نوں سچائی وچ تول کے ویکھو

اتھے جھوٹے سِجدیاں دی کوئی تھوڑ نہیں

میری بات سے اگر کوئی اختلاف رائے رکھنا چاہتا ہے وہ ضرور رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے رکھنا ہر شخص کا حق ہے۔ اور اگر میری کسی بھی بات سے اگر کسی کو کوئی دُکھ ہوا ہے تو میں اُس کے لئے معذرت خواہ ہوں۔ یہ میرے اپنے نظریات ہیں جو میں نے بیان کئے ہیں میرا مقصد کسی کو دکھ پہنچانا نہیں ہے اپنی بات کا اظہار کرنا ہے اور اظہار رائے کی آزادی دلیل کے ساتھ اور پر امن طور  ہونی چاہئیے یہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اللہ تعالیٰ دنیا کے تمام انسانوں کو محبت ، امن اور بھائی چارہ نصیب کرے آمین

سّید محمد تحسین عابدی

No comments:

Post a Comment