Friday, 22 January 2016

چارسدہ دہشت گردوں کا حملہ


باچا خان یونیورسٹی چارسدہ دہشت گردوں کا حملہ

 دہشت گردوں کی سفاکانہ فائرنگ کے نتیجہ میں بائیس معصوم افراد شہید جبکہ پچاس افراد شدید زخمی ہوگئے

پورے پاکستان میں دہشت گردوں کے اس بیہمانہ حملے سے صف ماتم بچھ گئی پروفیسر سید حامد حسین نے اپنی جان وطن پر قربان کردیہرآنکھ اشکبار
جنوری 20 کا دن باچا خان یونیورسٹی کے طلباء کے لئے کسی قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ اس روز چار دہشت گردوں نے صبح ساڑھے نو بجے شدید دھند کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے یونیورسٹی کی عقبی دیوار پھاندی اوروہ یونیورسٹی میں داخل ہو گئے اور طلباء پر شدید فائرنگ شروع کر دی طلبا، اور سٹاف اپنی جان بچانے کے لئے ایگزامینیشن ہال اور دوسری محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بھاگے لیکن دہشت گردوں کی فائرنگ اتنی شدید تھی کہ طلباء اپنے ہی خون میں ڈوبے گرتے رہے لیکن بے رحم اور سفاک دہشت گرد طلباء کا پیچھا کرتے رہے طلباء نے کلاس رومز کی کھڑکیوں سے باہر چھلانگیں لگائیں تاکہ دہشت گردوں کی قاتل گولیوں سے محفوظ رہ سکیں لیکن دہشت گرد تاک تاک کر معصوم طلباء کو اپنی بے رحم گولیوں کا نشانہ بناتے رہے جس سے بہت سے طلباء زخمی ہو کر گرتے رہے اور کچھ طلباء نے موقع پر ہی جام شہادت نوش کیا۔
اس موقع پر کمیسٹری کے پروفیسر سید حامد حسین نے انتہائی بہادری کے ساتھ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا لیکن دہشت گردوں نے اُن پر فائرنگ کی اور قوم کے بہادر سپوت سید حامد حسین دہشت گردوں کی گولیوں سے شہید ہو گئے اس طرح سید حامد حسین بھی اُن پاکستانی بہادروں کی صف میں شامل ہو گئے جنہوں نے دہشت گردوں سے ہار نہیں مانی اور اپنی بہادری کی داستان رقم کرتے ہوئے دہشت گردوں کو یہ پیغام دیا کہ پاکستان میں ابھی ایسے فرزند موجود ہیں جو دہشت گردوں کا ہرمشکل گھڑی میں مقابلہ کرتے ہیں اور اپنی جان اس وطن کی کی حفاظت کے لئے قربان کرنے کو ہر وقت تیار ہیں اور اپنی جان کو اپنی مٹی پر قربان کرنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔ پاکستان ایسے ہی بیٹوں اور بیٹیوں کی قربانیوں کی وجہ سے قائم و دائم ہے
واقع کی اطلاع ملتے ہی آرمی کے جوانوں، سیکورٹی کے اداروں اور پولیس کے جوانوں نے فوری کاروائی کرتے ہوئے باچا خان یونیورسٹی چار سدہ کو گھیرے میں لے لیا اور دہشت گردوں کے خلاف فوری آپریشن شروع کر دیا اور دہشت گردوں نے باہر جب اپنے گرد گھیرا تنگ دیکھا تو وہ طلباء کو بھول گئے اور انہوں نے سیکورٹی اداروں کے جوانوں سے فوری مقابلہ شروع کر دیا اور اُن پر فائرنگ شروع کر دی جواب میں سیکورٹی کے اداروں کی جانب سے جوابی کارروائی کرتے ہوئے فائرنگ کا آغاز کر دیا گیا سیکورٹی کے اداروں کے جوان زیادہ سے زیادہ طلباء کی جان بچانا چاہتے تھے اس لئے انہوں نے دہشت گردوں کی توجہ طلباء سے ہٹا کر اپنی طرف مبذول کرا لی اور انتہائی احتیاط کے ساتھ فائرنگ کی تاکہ طلباء کو کسی قسم کا نقصان نہ پہنچے ہمارے بہادر جوانوں کی فائرنگ سے دہشت گردوں کے حوصلے پست ہو گئے اور ایک ایک کر کے چاروں بے رحم اور ظالم دہشت گرد ہلاک ہوگئے۔ سیکورٹی کے اداروں نے فوری طور پر زخمی طلباء کو ہسپتال منتقل کیا تاکہ اُن جان بچائی جاسکے اور ان کو طبی سہولیات فراہم ہوسکیں۔
اس المناک اور ہولناک سانحے میں بائیس افراد نے جام شہادت نوش کیا اوریہ معصوم اور بے گناہ افراد اپنی بند آنکھوں سے سب سے یہ سوال ضرور پوچھ رہے تھے کہ ہمیں کس جرم میں قتل کیا گیا ہمارا قصور کیا تھا شاید وہ چاروں دہشت گرد جانتے ہوں کہ وہ کیوں معصوم لوگوں کی جان لینے آئے تھے لیکن وہ تو خود اپنے کئے کا آنجام بھگتے ہوئے اپنی جان کو بے مقصد گنوا بیٹھے تھے ہاں اُن کے آقا جنہوں نے اُن چاروں کو برین واش کر کے بے گناہ اور معصوم لوگوں کو قتل کرنے کے لئے بھیجا تھا اپنے ناپاک مقاصد کو خوب اچھی طرح جانتے ہیں افسوس صد افسوس کوئی تو بتائے کیا بے گناہ لوگوں کی جان لینا اسلام ہے ارے اسلام تو سلامتی، امن اور بھائی چارے کا دین ہے۔ یہ دین کبھی کسی بے گناہ انسان کے قتل کی اجازت نہیں دیتا کاش دہشت گرد اور اُن کے آقا کچھ سوچے اور سمجھیں لیکن انہیں اس سے کیا اسلام ساری دنیا میں بدنام ہوتا ہے تو ہوتا رہے دُنیا کے لوگ اسلام جیسے امن اور سلامتی کے دین کو دہشت گرددوں کا دین کہتے رہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا انہیں تو دوسروں کی جان لینی ہے اور اپنی جان بے مقصد گنوانی ہے افسوس صد افسوس۔
اس واقع کی اطلاع ملتے ہی پاکستان فوج کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل راحیل شریف فوری طور پر اپنی تمام مصروفیات ترک کر کے چارسدہ پہنچ گئے انہوں نے اپنے جوانوں کا حوصلہ بڑھایا اور ہسپتال پہنچ کر زخمیوں کی عیادت کی اور اپنی آمد سے دہشت گردوں کو یہ پیغام بھی دیا کہ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی کے ادارے دہشت گردوں کی ان کاورائیوں سے بالکل خائف نہیں ہیں وہ ہر صورت میں دہشت گردوں کو اپنی پاک سر زمین سے پاک کریں گے اور آخری دہشت گرد کے خاتمے تک اُن کا پیچھا کیا جائے گا۔ اور پاک سرزمین کو دہشت گردی سے پاک کیا جائے گا۔
پوری پاکستانی عوام دہشت گردوں کے خلاف پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ دہشت گردی کے اس واقع کے بعد پورے پاکستان میں صف ماتم بچھ گئی ہر آنکھ نم تھی اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔ میڈیا نے اپنا فرض ادا کرتے ہوئے لمحہ بہ لمحہ کی رپورٹ عوام تک پہنچائی اورعوام کو ہر ہر لمحے سے با خبررکھا۔ لوگوں میں ایک دکھ کی لہر تھی جو دوڑ گئی تھی ہر کوئی ایک دوسرے سے یہ سوال پوچھ رہا تھا کی کب تک پاکستانی عوام اپنے پیاروں کے جنازوں کو کندھا دیتی رہے گی وہ گھڑی کب آئے گی کہ پاکستانی قوم کو سکون کا سانس نصیب ہو گا۔ لیکن سوال تو ہر کوئی کر رہا تھا لیکن شاید جواب کسی کے پاس نہیں تھا
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان بھی واقع کے فورا بعد چارسدہ پہنچ گئے اور انہوں نے ہسپتال پہنچ کرزخمیوں عیادت کی  اور اس المناک سانحہ پر اپنے گہرے دُکھ  اوررنج کا اظہار کیا ۔ واقع کی اطلاع ملتے ہی مذمتی بیانات کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو گیا اور ہر کوئی اس سانحہ کی شدید مذمت کرتا نظرآیا ٹی وی چیلنز پر اس سانحہ کی لمحہ لمحہ کی رپورٹنگ کی جارہی تھی اور ساتھ ہی تبصرے اور تجزیئوں کا سلسلہ بھی جاری تھا سب کو گلہ تھا تو ایک یہی گلہ تھا کہ وزیراعظم پاکستان محترم جناب نواز شریف جن کو عوام نے مینڈیٹ دے کر وزارتِ عظمی کی کرسی پر بٹھایا  وہ فوری طور پر اپنی تمام مصروفیات ختم کر کے چار سدہ کیوں نہیں پہنچے ہر لب پر یہی سوال تھا کہ ہمارے محترم وزیراعظم کہاں ہیں اگر وہ نہیں پنہچ سکتے تھے تو کم از کم شہباز شریف جناب وزیر اعلیٰ پنجاب ہی پہنچ کر لوگوں کے آنسو پہنچتے اور اگر وہ بھی کسی مجبوری کی وجہ سے نہیں آسکے تو وزیر داخلہ جناب چوہدری نثار یا وزیر دفاع جناب خواجہ آصف ہی لوگوں کی دلجوئی کو پہنچ جاتے لیکن افسوس ایسا نہیں ہو سکا جن کے جگر گوشے چلے گئے اُن کی دلجوئی صرف بیانات دینے سے نہیں ہوسکتی لوگوں کے ذہنوں میں گرہ پڑجاتی ہے جو مشکل سے ہی کھلتی ہے۔ 
چلیں جو ہونا تھا ہو گیا لیکن سوچنا تو یہ ہے کہ ہم اِن واقعات اور سانحات کی روک تھام کے لئے پہلے سے پلاننگ کیوں نہیں کرتے ایجنسیوں کو خبر ہوتی ہے کہ دہشت گردی کی واردات ہونے والی ہے لیکن ہم دہشت گردوں تک کیوں نہیں پہنچ پاتے اور دہشت گردی کی وارادت ہونے سے پہلے ہی دہشت گردوں کو اپنی گرفت میں کیوں نہیں لے لیتے یہ سب کے لئے ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے یا ہم میں پروفیشنل ازم کی کمی ہے یا تمام سیکورٹی اداروں میں آپس میں تال میل اور ربط میں کمی ہے کہ 
 دہشت گرد ہمیں چکمہ دے کر دہشت گردی کی واردات کر جاتے ہیں  اور پھر وہی تبصروں، تجزیئوں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے ہر کوئی دُوردُور کی کوڑی لانے کی کوشش کرتا ہے لیکن  کوئی یہ دیکھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتا کہ ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے اگر ہم یہ دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرلیں کہ ہماری ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے تو ہم بہت سے مسائل پر قابو پانے میں کامیاب ہوجائیں گے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ ہماری ناک کے نیچے کون سے ایسے دشمن ہیں جواپنی   کارراوائیاں کر کے ہمیں نقصان پہنچانے کی کوشش کر رہے ہیں اور کچھ ایسے دشمنوں کو بھی تلاش کرنا ہو گا جو ہم سے منہ سے تو رام رام کرتے نظر آتے ہیں لیکن اُن کی بغل میں ہمارے لئے چھری چھپی ہوئی ہے۔
ہمیں دہشت گردوں کے قدموں کے نشانات کو بھی تلاش کرنا ہو گا کہ وہ کس طرف جا رہے ہیں اور کس طرف اشارہ کر رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ ہم تو امن اور محبت اور تجارت کی باتیں کرتے رہیں اور کوئی ہماری پیٹھ میں چھرا گھونپ دے۔ اس لئے ہر قدم انتہائی پھونک پھونک کر اُٹھانا ہو گا۔ پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے جو گزشتہ سالوں میں سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہوا ہے اور پاکستان کو سب سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے اور پاکستان ہی وہ ملک ہے جس نے سب سے زیادہ دہشت گردوں کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن جب کوئی یہ کہتا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کروا رہا ہے تو یہ انتہائی افسوس کا مقام ہوتا ہے عجیب تماشا ہے دہشت گردوں سے لڑے بھی پاکستان، دہشت گردوں کو مارے بھی پاکستان اپنی معیشت کو دُنیا کے مطالبات کے پیچھے ختم کرلے لیکن دُنیا ہے کہ ڈو مور ڈومور کی رٹ لگائے ہوئے ہے اور پھر الزام بھی پاکستان کے سر دھر دیا جاتا ہے پاکستان دہشت گردی کرواتا ہے 
افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بھارت میں کہیں بھی کوئی بات یا واقع ہوجائے خواہ وہ اُن کے اپنے اندر ہی کے کسی آدمی نے کیا ہو بغیر سوچے سمجھے پاکستان کے سر الزام تھونپ دیا جاتا ہے کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ ہے بھارت میں کیا سب فرشتے بستے ہیں بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے اور کون کروا رہا ہے ذرا بھارت اپنے گریبان میں جھانکے تو اسے اپنا چہرہ ہی  نظر آئے گا۔ چار سدہ میں ہونے والی دہشت گردی میں دہشت گرد کہاں سے آئے اس کے تانے بانے کہاں بُنے گئے کیا اس کا جواب افغانستان اور بھارت دے سکیں گے۔ اپنا مطلب ہوا تو بھارتی وزیراعظم مودی پاکستانی وزیر اعظم  نواز شریف کی والدہ کے پیر چھونے آگئے۔ یعنی منہ میں رام رام اور پٹھانکوٹ جس کے بھارت ابھی تک کوئی ٹھوس ثبوت فراہم نہیں کرسکا فورا بغل سے چھری نکال لی اور پاکستان پر الزام تھونپ دیا۔  یعنی منہ میں رام رام اور بغل میں چُھری کی مثال پر پورا اُترا۔
ُپاکستانی عوام کو اپنے اندر اتحاد، ہم آہنگی اور یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ہو گا اور سب کو مل کر اندرونی سازشوں کا مقابلہ کرنا ہو گا کیونکہ ہمیں باہر سے زیادہ اندر سے خطرہ ہے کہ دمشن کی سب سے بڑی خواہش ہی یہ ہے کہ وہ ہمیں اندر سے کمزور کرے  اور ہمیں کمزور پاکر ہماری پیٹھ میں چُھرا گھونپنے کی کوشش کرے کیونکہ بھارت بھی یہ بات اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ جنگ کے ذریعے پاکستان پر قابو نہیں پاسکتا اس لئے وہ ہمیں ایک طرف مذاکرات کا خواب دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور پھر خود ہی بہانہ بنا کر مذاکرات سے راہ فرار اختیار کرتا ہے وہ صر ف وقت پر وقت حاصل کررہا ہے کیونکہ اُس پر بھی مذاکرات کرنے کا دبائو ہے جس کو وہ برداشت کر نہیں پا رہا ہے اور مذاکرات سے فرار کے لئے مختلف حیلے بہانے بنا رہا ہے اور طرح طرح کی سازشیں کررہا ہے اس لئے ہمیں اندرونی طور پر خود کو پاکستان کی لڑی میں پرونا ہو گا جب تک 
 ہم اپنے ذہنوں سے پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، مہاجر ، سرائیکی، سنی، شیعہ، بویلوی، دیوبندی، اہلحدیث کا بھوت  نہیں اتاریں گے ہم اندرونی طورپر کبھی خود کو مظبوط نہیں کرسکیں گے۔
ہمیں صرف اور صرف پاکستانی بن کر سوچنا ہو گا اور ایک دوسرے پر اعتبار کرنا ہو گا اور ایک دوسرے کو اعتماد دینا ہو گا جب ہی ہم خود کو اندرونی طور پر مظبوط کرسکیں گے۔ اگر ہم نے ایک بار متحد ہو کر خود کو ایک پاکستانی کی لڑی میں پرو لیا تو یقین کیجیئے پھر دنیا کی کوئی بیرونی طاقت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ آخر ہم کب تک ایک ددسرے سے دست و گریباں رہیں گے، کب تک ایک دوسرے کا خون بہائیں گے، ہم کب یہ سوچیں گے کہ ہمیں ملک سے دہشت گردی ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک سے معاشی دہشت گردی ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک سے صوبائی عصبیت ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک سے فرقہ واریت ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک سے کرپشن ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک سے بھتہ خوری ختم کرنی ہے ، ہمیں اس ملک سے نفرت ختم کرنی ہے، ہمیں اس ملک کو پرامن بنانا ہے، ہمیں اس ملک سے سفارش ختم کرنی ہے ، ہمیں اس ملک کے مستقبل کو اعلیٰ تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے
آئیے سب مل کر اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تھامیں اورآپس میں تفرقہ پیدا نہ کریں، آئیے عہد کریں کہ ہم خود کو سب سے پہلے پاکستانی سمجھیں گے بعد میں کچھ اور، آئیے عہد کریں ہم ایک دوسرے کے اختلاف رائے کو برداشت کریں گے دوسرے کی دلیل سنیں گے اور اپنی دلیل بتائیں گے کسی سے بری زبان یا گالی کی زبان میں بات نہیں کریں گے۔ آٓئیے عہد کریں کہ ہم کرپشن سے خود کو دور کریں گے، آئیے ہم عہد کریں ہم نفرت کو ختم کریں گے اورمحبت کو جنم دیں گے، آٰئیے ہم عہد کریں کہ ہم صوبائی عصبیت کو ختم کریں گے اور ایک دوسرے کے لئے قربانی دیں گے اور ایک دوسرے کے حق کو سمجھیں گے، آئیے ہم عہد کریں ہم صرف اپنے حقوق کی بات نہیں کریں گے بلکہ ہم اپنے فرائض کو بھی پہچانے گے اور اُن پر عمل کریں گے، 
آئیے ہم عہد کریں کہ ہم امتحان میں نقل کر کے پاس ہونے کی کوشش نہیں کریں گے بلکہ اپنی محنت سے پاس ہونگے، آیئے ہم عہد کریں کہ ذرا ذرا سی بات پر یا اختلاف پر ایک دوسرے کو قتل نہیں کریں گے، آئیے ہم عہد کریں کہ ہم دولت کمانے کے لئے غلط راستہ شارٹ کٹ استعمال نہیں کریں گے آئیے ہم عہد کریں کہ ملک سے لوٹی ہوئی دولت اس ملک کو واپس کردیں گے، آئیے ہم عہد کریں کہ اس ملک سے فرقہ واریت کو ختم کریں گے اور کسی کو کافر کافر نہیں کہیں گے اور کسی کو لعنت لعنت نہیں کریں گے، آئیے ہم عہد کریں کہ ایک دوسرے پر غلط الزامات نہیں لگائیں گے، آئیے ہم عہد کریں اپنی شادیوں سے ہندوانہ رسومات کو ختم کر کے اسلام کی سادگی اپنائیں گے، آئیے ہم عہد کریں کے کہ اسلام کو بند گلی میں لے جانے کے بجائے اجتہاد کریں گے اور اسلام کو ایک روشن خیال اور اعلیٰ دین کے طور پر منوائیں گے، آئیے ہم عہد کریں کہ عورتوں کو اُن کے حقوق دیں گے اور اُن کو کام کرنے کی آزادی دیں گے  اور اس سلسلہ میں وقت اور زمانے کے مطابق اجتہاد کریں گے،
آئیے ہم عہد کریں کہ جو پاکستانی کسی بیرون ملک کام کرتا ہو یا بیرون ملک جائے وہ پاکستان کی عزت اور وقار کا پورا خیال رکھے گا اورکسی بھی غیر اخلاقی اورغلط سرگرمی میں ملوث نہیں ہوگا، آئیے ہم عہد کریں کہ ہم ہر قسم کی اقرابا پروری کو ختم کریں گے، آئیے ہم عہد کریں کہ ہم خود بھی احساس کریں گے کہ بجلی اور گیس ناجائز طور پر خرچ نہیں کریں گے فالتو بتیاں اور لائٹیں بجھا دیں گے اور گیس صرف ضرورت کے وقت استعمال کریں گے، تو کوئی ہے جو سوچے سمجھے اور عمل کرے صرف باتیں نہ کرے پہلے خود اچھا عمل کرے اور پھر لوگوں کو بھی اچھائی کی طرف بلائے اگرآپ اِن باتوں پر عمل کریں گے تو مجھے یقین ہے پاکستان میں تبدیلی بھی آجائے گی اور انقلاب بھی آجائیگا ورنہ ہزاروں سال بھی نظام بدلتے رہیں کچھ نہیں ہو گا جو بھی نظام لائو گے عمل نہیں ہو گا تو نظام بیٹھ جائے گا۔ اچھائی کی طرف آئو گے تو کوئی بھی نظام ہو گا کامیاب ہوجائے گا جب تک خود کو نہیں بدلو گے نہ تبدیلی آئے گی نہ انقلاب آئے گا پہلے خود سچائی کی طرف آئو اور اچھے کام کرو برے کاموں کو چھوڑ دو سب خود بخود ٹھیک ہوجائے گا ورنہ کرتے رہو ہزاروں سال بحث و مباحثہ یہ نظام وہ نظام یورپ میں جمہوری نظام کیوں کامیاب ہے کی وہ اس نظام پر عمل کرتے ہیں ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم عمل بالکل نہیں کرتے افسوس صد افسوس
ہر کسی کو حق حاصل ہے کہ وہ میری باتوں اختلاف رکھ سکتا ہے اسی طرح مجھے بھی یہ حق حاصل ہے کی میں ددسروں سے اختلاف رائے رکھ سکوں یہ میرے اپنے خیالات ہیں ہو سکتا ہے کہ میرے یہ خیالات کسی کو پسند نہ آئیں یا کسی کو میری کوئی بات بری لگی ہو تو میں معافی کا خواستگار ہوں میں نے اپنے دل کی بات آپ تک پہنچا دی اب آپ بہتر سمجھتے ہیں جو راستہ آپنائیں وہ آپ کا خود چُنا ہوا راستہ ہو گا اور انسان وہی کرتا ہے جو وہ اپنے لئے بہتر سمجھتا ہے اللہ تعالی سب کا حامی ناصر اور اور ہم سب کو وہ ہدایت عطا فرمائے اور سیدھا سچا اور روشن راستہ دکھائے آمین

 سید محمد تحسین عابدی





No comments:

Post a Comment