Thursday 23 October 2014

: جھلملاتے ستارے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جھلملاتے ہوئے


جھلملاتے ستارے
اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جھلملاتے
   ہوئے جھلملاتے ستارے اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جھلملاتے ہوئے ستاروں سے سے مزین کیا ہے۔ قدیم زمانے میں مسافر اِن ستاروں ...


جھلملاتے ستارے
اللہ تعالیٰ نے آسمان کو جھلملاتے ہوئے ستاروں سے سے مزین کیا ہے۔ قدیم زمانے میں مسافر اِن ستاروں کی مدد سے اور خاص طور پر سات ستاروں کے جھرمٹ اور قطبی ستارے کی مدد سے راستہ بھٹکے ہوئے مسافر اپنا راستہ تلاش کرنے اور اس کی سمت کا تعین کرنے میں کامیاب ہوجاتے اور منزلِ مقصود تک پہنچ جاتے تھے۔
'''جھلملاتے تاروں کی روشنی میں'''
'''بھٹکے ہوئوں کو راستہ ملتا ہے'''
قدیم زمانے میں جنگلوں، بیابانوں، صحرائوں اور پہاڑوں میں جب مسافر اپنا راستہ بھٹک جاتے تھے تو وہ اپنے راستے کو جھلملاتے اور جگمگ جگمگ کرتے ستاروں کی مدد سے اپنے صحیح راستے کی سمت کا تعین کر لیتے تھے اور وہ اپنے اس کا میں اِس قدر ماہر تھے کے ہمیشہ ان جھلملاتے ستاروں کو اپنا وسیلہ بنا کر صحیح راستے پر گامزن ہو جاتے تھے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچ جاتے تھے۔
اللہ تعالیٰ نے نے اس کائنات اور اِس دُنیا کو تخلیق کیا ہے اس نے زمین پر اُونچے اُونچے پہاڑ، بڑے بڑے سمندر، درریا، میدان، صحرا، جنگل، درندے، چرندے، پرندے، حشرات، نباتات، درخت، پھل، پھول، سمندری حیات، اور سب سے بڑھ کر انسان جیسی اشرف المخلوق کو پیدا کیا اور انسان کو عقل عطاء کرکے تمام مخلوق سے افضل قرار دیا اور تمام مخلوقات کو ایک دوسرے کا وسیلہ بنایا اور انسان کو اختیار دیا کہ وہ اپنی عقل و دانش سے کام لے کر اَس دنیا میں اچھے اور برے جو چاہے اعمال کرے اور اِن اعمال کے بدلے کے لئے قیامت کا دن مقرر کیا تاکہ انسان کو اُس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے۔ اچھے اعمال کی صورت میں جنت کا وعدہ کیا گیا اور برے اعمال کی صورت میں دوزخ کی خبر سنائی گئی۔
اللہ تعالیٰ نے اسی طرح آسمان کو سورج، چاند اور ستاروں سے مزین کیا اور انہیں آسمان کی زینت بنایا یہ تمام چیزیں جو اللہ نے بنائیں اُن سب کو ایک دوسرے کا وسیلہ بنایا۔ انسان جب اللہ تعا لیٰ کی اِن نشانیوں کو دیکھتا ہے تو اس کو جو عقل و شعور اللہ نے عطاء کیا ہے اُس عقل و شعور کے وسیلے سے کام لے کر انسان بے اختیار یہ سوچتا ہے کے ان چیزوں کو بنانے والا ہونا چاہئیے اور جب انسان ہی سوچتا ہے کہ اِن چیزوں کو بنانے والا کوئی ہے تو وہ یہ بھی یقیناً سوچتا ہے کہ ان چیزوں کو جو صدیوں سے ایک توازن سے کام کررہی ہیں کو بنانے والا بھی ایک ہونا چاہئیے کیو نکہ اگر وہ ایک نہ ہو اور زیادہ ہوں تو پھر اس صورت میں اختلاف رائے کی وجہ سے کائنات کا یہ نظام جو صدیوں سے ایک توازن کے ساتھ چل رہا ہے اور اِس میں کوئی بگاڑ پیدا نہیں ہوا کبھی بھی قائم نہیں رہ سکتا جن لوگوں نے اپنے عقل و شعور سے سوچا وہ اللہ کی توحید تک پہنچے میں کامیاب ہوگئے۔
اب ہم غور کریں تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اللہ نے جس طرح آسمان کو سورج، چاند اور ستاروں سے زینت بخشی اسی طرح اس نے انسانوں کی ہدایت اوراُن کو سیدھا اور سچا راستہ دکھانے کے لئے اپنے چُنے ہوئے اور اپنے منتخب کئے ہوئے انبیاء علیہ السلام، بارہ امام علیہ السلام، اولیاء، صوفیاء، صالِحین، قلندر اور نیک اور ہاکیزہ بندے روشن ستاروں کی طرح زمین پر بھیجے تاکہ وہ بھٹکے ہوئے لوگوں کو جو کہ شیطان کے جال میں پھنس کر اپنے سیدھے راستے یعنی صراط مستقیم سے سے بھٹک گئے ہیں ان کو سچائی کا سیدھا راستہ صراط مستقیم دکھائیں ۔ اللہ کے اِن نیک بندوں نے سچائی کا سیدھا راستہ دکھانے کے لئے ہر قسم کی تکالیف، مصیبتیں اور دُکھ برداشت کئے لیکن ان کے صبر و استقامت میں ایک لمحے کی بھی کمی نہ ہوئی۔ اللہ کے اِن مقدس، نیک اور پاکیزہ بندوں نے اللہ کا پیغام نہایت ایمانداری کے ساتھ لوگوں تک پہنچایا اور وہ لوگوں تک اللہ کے پیغام کو پہنچانے کا وسیلہ بنے۔
اب یہ انسانوں کے لئے سوچنے کا مقام ہے کہ دنیا کے دنیا دار لوگ جن کو دُنیا کی کشش اور رنگیناں مسلسل اپنی طرف کھنچتی رہی ہے اور کیا وہ اللہ کے چُنے ہوئے اور منتخب انبیاء علیہ السلام، بارہ امام علیہ السلام، اولیاء، صوفیاء، صالِحین، قلندر اور نیک اور ہاکیزہ بندے جن کو اللہ نے روشن ستاروں کی مانند لوگوں کی ہدایت اور سچائی کا سیدھا راستہ صراطِ مستقیم دکھانے کے لئے اس دُنیا میں کو اپنا وسلیہ بنا کر سیدھے کی طرف اپنا سفر کررہے ہیں یا شیطان کی طرح غرور و تکبر کا مظاہرہ کرتے ہوئے اللہ کے بنائے ہوئے وسیلے اور اس کی ولایت سے انکار کررہے ہیں کیونکہ شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ نہ کرکے اس کے بنائے ہوئے وسیلے سے اور اس کے بناے ہوئے اللہ کے نائب سے انکار کیا۔ میرے نزدیک حضرت آدم علیہ السلام کو سجدے سے شیطان کا انکار کرنا بالکل اسی طرح ہے جس طرح لوگ حضرت علیّ کی ولایت سے انکار کرتے ںظر آتے ہیں کیونکہ شیطان نے اللہ کی توحید سے بالکل انکار نہیں کیا تھا اس کو انکار اللہ کے وسیلے سے اور اللہ کے نائب سے تھا۔
شیطان نے زمین کے چپے چپے پر اللہ کو سجدہ کیا تھا اور اس نےہزاروں سال اللہ کی عبادت کی تھی لیکن اُس کی یہ ساری عبادت رائیگاں چلی گئی جب اُس نے غرور اور تکبر میں آکر اللہ کے وسیلے اور اللہ کے نائب کا انکار کیا ان لوگوں کو اِس بات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ شیطان کی طرح اللہ کے وسیلوں سے انکار کرے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے لئے تو اللہ ہی کافی ہے اور اللہ کے حکم سے غدیر و خم میں رسول صلی علیہ والہ وسلم حضرت علی علیہ السلام کے اعلان ولایت سے انکار کرے غرور تکبر کرکے اپنے اپنی ساری عبادت کو ضائع کردیتے ہیں کیونکہ شیطان نے بھی تو اللہ کی توحید کا اقرار کیا لیکن اللہ کے وسیلے اور اس کی بنائی ہوئی ولایت سے انکار کیا لوگو! اللہ کے وسیلوں کے ذریعے ہھی صراط مستقیم کو تلاش کرو جیسا کہ قدیم زمانے میں لوگ جھلملاتے ہوئے تاروں کی مدد سے اپنا صحیح راستہ تلاش کرلیتے تھے۔
سید محمد تحسین عابدی۔

No comments:

Post a Comment