Thursday, 30 October 2014

LOVE FOR ALL





محبت


محبت کا مطلب ہے کسی سے پیار، لگائو، اُنسیت یا دل کے اندر اَس ہستی کے لئے اپنا سب کچھ نچھاور کردینے کا جذبہ رکھنا، جس سے کوئی شخص، پیار، انسیت اور لگائو رکھتا ہو محبت میں لین دین نہیں ہوتا یہ ایک سچا اور خالص جذبہ ہے جو انسان کے دل کے اندر سے پھوٹتا ہے اور انسان کے پورے وجود کو جکڑ لیتا ہے جب تک محبت خالص  اورسچی ہو وہ محبت کہلاتی ہے لیکن جب محبت خالص اور سچی نہیں ہوتی تو پھر اُس کو فلرٹ کا نام دیا جاتا ہے اور وہ محبت نہیں رہتی۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اُس کے اندر محبت کا جذبہ رکھا۔ اور انسان میں محبت کا یہی جذبہ ہے جس کی وجہ سے یہ دُنیا قائم و دائم ہے ورنہ یہ دُنیا جہنم بن جاتی اور شاید اِس دُنیا کا وجود ہی ختم ہو جاتا۔

محبت کی اقسام


 اللہ سے محبت

 نبیوں اور رسولوں سے محبت

 اپنے وطن سے محبت

 اپنے والدین اور اپنے خاندان سے محبت

 دُنیا کے لوگوں سے محبت

 سچی محبت جس کی اِس دُنیا میں بہت کم مثالیں ہیں۔

 اللہ سے محبت

محبت کی بے شمار اقسام ہیں سب سے پہلے انسان کو اپنے اللہ سے محبت ہوتی ہے لیکن مختلف مذاہب میں اِس کی صورتیں مختلف ہیں کہیں اللہ کو دُنیا میں میں خدا کے نام سے پکارا جاتا ہے، کہیں ایشور کہا جاتا ہے جاتا ہے کہیں دیوتا سمجھ کر اُس کی پوچا کی جاتی ہے تو کہیں اللہ کو گوڈ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ مسلمان ایک اللہ کو مانتے ہیں اور اپنے اللہ سے محبت کرتے ہیں۔ سب مذاہب اور عقائد کے لوگ اپنے اپنے نکتہ نظر سے اللہ سے محبت کرتے ہیں یا یوں کہا جا سکتا ہے کہ سب کسی نہ کسی صورت میں اللہ کو مانتے ہیں اور اُس سے محبت کرتے ہیں لیکن راستے جدا ہیں اور زاویہ نگاہ کا فرق ہے۔ یہ انسان کی اللہ سے محبت ہی تو ہے جو دُنیا کے لوگوں کو ایک رشتہِ انسانیت میں جوڑے ہوئے ہے۔

نبیوں اور رسولوں سے محبت


اللہ تعالیٰ نے اس دُنیا میں لوگوں کی ہدایت اور انہیں سیدھا راستہ یعنی صراطِ مستقیم دکھانے کے لئے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام اور رسول علیہ السلام بھیجے اللہ نے ہر اُمت کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہ السلام اور رسول بھیجے اور بعض امّتوں میں تو ہدایت کے لئے انبیاء کثیر تعداد میں بھیجے اِس وقت دُنیا میں تین بڑے مذاہب ہیں جو اپنے انبیاء علیہ السلام کی پیروی کرتی ہیں مسلمان نبی پاک حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی پیروی کرتے ہیں اور اُنہیں اپنا نبی مانتے ہیں اور اُن سے بے پناہ محبت اور عقیدت رکھتے ہیں ۔ عیسائی حضرت عیسٰی علیہ السلام کی پیروی کرتے ہیں اور انہیں اپنا نبی مانتے ہیں۔ اور اُن سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔ یہودی حضرت یعقوب علیہ لسلام کے پیروکار ہیں اِس کے علاوہ یہودیوں میں نبیوں کا ایک پورا سلسلہ ہے اور سب سے زیادہ انبیاء اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کی ہداہت کے لئے بھیجے ان میں حضرت یوسف علیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت دائود علیہ السلام، حضرت سلیمان علیہ السلام اور دیگر جلیل القدر انبیاء شامل ہیں جن کی یہودی یا بنی اسرائیل کے لوگ پیروی کرتے ہیں اور اُن سے محبت کرتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اُمت دُنیا کی وہ واحد اُمت جو تمام انبیاء علیہ السلام پر ایمان رکھتی ہے اور اُن سے شدید محبت رکھتی ہے اور ان سب کا احترام کرتی ہے اور عقیدت رکھتی ہے۔ یہ ہمارے نبی پاک کی تعلیم اور تربیت کا ہی کرشمہ ہے کہ اُنہوں نے مسلمانوں کے دلوں میں محبت، عقیدت اور احترام کا جذبہ پیدا کردیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمان محبت اورعقیدت کے جذبے سے سرشار تمام انبیاء سے محبت اور عقیدت رکھتے ہیں۔


اہلبیت علیہ السلام سے محبت


اہلبیت علیہ السلام سے محبت کا حکم ہے رسول پاک صلیٰ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک ہے کہ میں تم میں دو گراں قدر چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں جب تک اِن سے رجوع کرتے رہو گے کبھی گمراہ نہیں ہو گے ایک قرآن مجید اور دوسرے میرے اہلبیت کیونکہ اللہ کے رسول صلیٰ علیہ وآلہ وسلم کے اہلبیت علیہ السلام ہی وہ پاک اور اللہ کی چُنی ہوئی اور منتخب ہستیاں ہیں جو قرآن مجید کی صحیح تشریح کر سکتی ہیں اور مسلمانوں کو صراطِ مستقیم یعنی سیدھے راستے پر گامزن کر سکتی ہیں اِس لئے اہلیبت سے محبت کرنا اور اُن سے عقیدت اور احترام رکھنا مسلمانوں کے ایمان کا حصہ ہے۔ آج مسلمان دُنیا میں صرف اِس وجہ سے ذلیل و خوار ہو رہے ہیں کہ اُن کے دلوں میں اہلیبت کی وہ محبت نہیں ہے اور مسلمان اہلیبت علیہ السلام کے کردار اور اُن کے عمل کی ہیروی نہیں کرتے اور جو اہلبیت سے محبت کے دعوے دار ہیں وہ اہلبیت سے محبت کا ڈھول تو ہر روز پیٹتے ہیں لیکن یہ بھے ایک کڑوا سچ ہے کہ محبت کے دعوے دار بھی اہلیبت کے کردار و عمل کی بالکل پیروی نہیں کرتے کسی سے صرف محبت کرنا کافی نہیں ہے جس سے آپ محبت کرتے ہیں جب تک آپ اُس کے کردار وعمل کو مکمل طور پر نہیں اپناتے محبت کے تقاضے پورے نہیں ہوتے محبت کرنے والوں سے میرا سوال ہے کے وہ دل پر ہاتھ رکھ کر بتائیں کیا وہ اہلبیت کے کردار و عمل کی پیروی کرتے ہیں یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ وہ مغربی معاشرے کی نام نہاد جمہوریت کے تو قائل ہیں اور اِس نام نہاد جمہوریت سے محبت کے دعوے کرتے ہیں یہ جمہوریت جو انہیں صرف خود غرضی اور دولت پرستی سکھاتی ہیں لیکن اللہ کے چُنے ہوئے منتخب بندوں کی پیروی کرنا اُن کے لئے مشکل ہے۔ کیونکہ اگر اہلبیت علیہ السلام کی پیروی کی جائے گی تو پھر سچ بولنا ہوگا۔ رشوت اور سفارش سے دُور رہنا ہوگا۔ ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری سے بچنا ہوگا۔ کمزور اور پسے ہوئے طبقے کو انصاف دینا پڑے گا اور یہ کسی طرح بھی لوگوں منظور نہیں ہے اسی لئے وہ اپنے جیسے غلط اعمال کرنے والے افراد کو چُنتے ہیں اور پھر مگر مچھ کے آنسو بہاتے نظر آتے ہیں کہ ہمیں انصاف نہیں ملا ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ آپ ایسے موقع پر اللہ کے اُن نیک اور چُنے ہوئے بندوں کے کردار اور عمل کو تو بالکل نظر انداز کر دیتے ہو لیکن اپنے چُنے ہوئے بندوں کی پیروی کرنے بیٹھ جاتے ہو جو تمہیں ظُلم اور نا انصافی کے سوا کچھ بھی نہیں دتیے افسوس ہے اے لوگوں تم لوگوں کے اِس دوہرے معیار پر۔ افسوس صد افسوس۔ یاد رکھو اللہ کے چُنے ہوئے اور منتخب کئے ہوئے بندوں اور تم عام انسانوں کے چُنے ہوئے اور منتخب بندوں ًٰمیں زمین آسمان کا فرق ہے اور یہی وہ فرق ہے جسے تم جان بوجھ کر سمجھنا نہیں چاہتے کیونکہ تم اللہ کے چُنے ہوئے منتخب بندوں کو اپنے جیسا سمجھتے ہو۔ افسوس تم سمجھتے سب کچھ ہو لیکن سمجھنا ہی نہیں چاہتے اگر یہ بات تم سمجھ جائو تو یہ دُنیا جنت بن جائے گی۔


وطن سے محبت


انسان جس مُلک میں رہتا ہے، جس ملک کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتا ہے اور اُس پر عمل کرتا ہے وہ اُس کا وطن ہوتا ہے۔ وطن کی محبت کو اپنے وطن کی مٹی کی محبت سے تشبیع دی جا تی ہے۔ انسان کو اپنے وطن سے اتنی شدید محبت ہوتی ہے کی وہ اپنے وطن کے لئے اپنا تن، من، دھن، سب کچھ قربان کرنے کے لئےتیار ہوتا ہے۔ اگرچہ لوگ اپنے رزق کی تلا ش میں دوسرے ممالک میں چلے جاتے ہیں لیکن وطن کی محبت کی کشش اُن کو ہر لمحہ اور ہر گھڑی اپنی طرف کھنچتی ہے اور دُور پردیس چلے جانے والے لوگ اس طرح کی صدا لگاتے نظر آتے ہیں۔

اماں مینوں  اپنے  وطن  دی  یاد  ستاودیں  ہے

اماں مینوں وطن دی مٹی دی خوشبو آودیں ہے

اپنے والدین اور اپنے خاندان سے محبت


انسان میں اللہ تعالیٰ نے محبت کا ایسا جذبہ پیدا کیا ہے کہ وہ اپنے والدین، اپنے بہن، بھائیوں، اپنی بیوی اور بچوں
اور اپنے خاندان اور اپنے رشتہ داروں سے قدرتی طور پر محبت کرتا ہے اور قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے والدین کا خاص طور پر خیال رکھنے کا حکم دیا ہے اور اسلام میں یہاں تک حکم ہے کہ اگر آپ کے والدین بوڑھے ہو جائیں تو اُف تک بھی نہ کہو اور اگر وہ کافر بھی ہوں تو اُن کا پورا خیال رکھو اور اُن سے محبت کرو اور اس کے علاوہ اپنی شریک حیات کا مکمل خیال اور اُس سے محبت سے پیش آنے کا حکم ہے، بچوں سے محبت کا حکم اسلام دیتا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث ہے کہ جو بچوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے سے نہیں۔  قرابتداروں یعنی خاندان کے لوگوں کا خیال رکھنے اوراُن سے محبت کرنے کا بھی حکم ہے۔

دُنیا کے لوگوں سے محبت


انسان جب اِس دُنیا میں آتا ہے تو جہاں اسے اُس کے بہن، بھائیوں سے محبت ملتی ہے وہیں وہ دُنیا کے رہنے والے لوگوں کے ساتھ ایک رشتہِ انسانیت محبت میں بندھ جاتا ہے۔ دُنیا میں اُس کے بہت سے دوست بنتے ہیں جن سے وہ محبت کرتا اور وہ اُس سے محبت کرتے ہیں اِس کے علاوہ اُس کا واسطہ دُنیا کے اور لوگوں کے ساتھ پڑتا ہے جیسے استاد، ڈاکٹر، وکیل، سیاستدان، دنیی اور مذہبی رہنما اور دیگر بے شمار افراد ہیں جن سے انسان تعلق بناتا ہے اور یہ تعلق کا رشتہ محبت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ زندگی کے اِس سفر میں اُسے بہت سے ایسے لوگ ملتے ہیں جنہیں اُس کی مدد اور محبت کی ضرورت ہوتی اور اسے دوسرے لوگوں کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور ہیار اور محبت کا سائیکل اسی طرح چلتا رہتا ہے اگرانسان لوگوں سے محبت نہ کرے تو یہ دُنیا رہنے کے قابل نہ رہے۔

 سچی محبت جن کی اِس دُنیا میں بہت کم مثالیں ہیں


دُنیا میں کچھ لوگوں نے ایسی سچی اور لازوال محبت کی جس نے محبت کو امر بنا دیا اِن میں ہیر رانجھا، سسی پنوں۔ نوری جام تماچی۔ لیلیٰ مجنوں شیریں فرہاد اور دیگر افراد یہ وہ سچی محبت کے علم بردار جنہوں نے سچی محبت کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ شاعروں نے اِن پر شاعری کی لکھاریوں نے ان پر داستانیں قلمبند کیں دُنیا اَن کی سچی محبت کو عزت کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ اِن کی سچی محبت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سچی محبت جرم نہیں ہے۔

محبت اللہ کا عطیہ ہے

محبت اللہ تعالیٰ کا ایک ایسا عطیہ ہے جس کی انسان جتنی بھی قدر کرے وہ کم ہے۔ محبت ایک عظیم جذبہ ہے جو انسان کے اندر دل کی گہرائی سے پھوٹتا ہے اور اِس دُنیا میں رنگیناں بکھیر دیتا ہے۔ 


  سید محمد تحسین عابدی 

No comments:

Post a Comment