Tuesday, 28 July 2015

رب سے باتیں


رب سے باتیں

اے میرے رب! میری سُن کیونکہ تو سب کی سنتا ہے خواہ وہ نیک ہو یا گناہ گار، سچا ہو یا جھوٹا سب تجھ سے فریاد کرتے ہیں اور تیرے ہی در کے محتاج ہیں ہاں یہ تیری مرضی ہے جس کو جو چاہے طاقت عطاء کرے، معجزے عطاء کرے اور انبیاء اور ولی بنا دے اور جس پر چاہے کرم کرے اور مشکل کشاء بنا بنادے اور جس پر تو اپنا غضب نازل کرے اور اسے بھی طاقت عطاء کرے اور شیطان بنا دے اب ہر کوئی اپنی طاقت کو اپنی مرضی اور اختیار سے استمال کرتا ہے اور انسان چاہے تو اپنی مرضی اور اختیار سے تجھے اپنا دوست بنا لے اور تیری آزمائشوں سے خندہ پیشانی سے گزرے تو تُو اسے انعام میں جنت عطاء کرے گا اور انسان چاہے تو اپنی مرضی اور اختیار سے شیطان کو اپنا دوست بنا لے تو تُوسزا میں اسے جہنم کی بھڑکتی ہوئی آگ میں ڈالے گا اور یقیناً تیرا وعدہ سچا ہے لیکن افسوس انسان تجھے اپنا دوست نہیں بناتا کیونکہ وہ تیری آزمائشوں سے گھبراتا ہے اور اُن کا سامنا نہیں کرنا چاہتا اسی لئے وہ شیطان کو اپنا دوست اور ساتھی بنا لیتا ہے اور اِس فانی دنُیا کو حاصل کرنے میں مصروف ہوجاتا ہے اور خسارے میں پڑجاتاہے روزِ قیامت انسان افسوس کرے گا کیونکہ اُس نے چند روزہ زندگی کی خاطر ا۔س دُنیا کو حاصل کیا اوراُس کو حاصل کرنے کے لئے ہر قسم کی دھاندلی کی  کاش انسان سوچے اور سمجھے اور تیری آزمائشوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرے۔
اے میرے پاک پروردگار! سب جانتے ہیں کہ جھوٹ تو جھوٹ ہوتا ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی جھوٹ ہی کہلائےگا اوراسی طرح دھاندلی تو دھاندلی ہوتی ہے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی میرے مالک سب جانتے ہیں اور شور مچاتے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے اور سب سے بہتر تو جانتا ہے کیونکہ بہت شور مچا طوفان اُٹھا ایک دوسرے پر الزامات کی بارش ہوئی کہیں 35 پینچر کا شور تھا تو کہیں آر اوز کی دھاندلی کا طوفان تو کہیں ٹی وی کیمروں کی وہ تصاویر جس میں ایک ہی شخص کو بار بار ووٹ ڈالتے دکھایا گیا تھا سب نے کہا سب نے شور مچایا، سب چیخے اور سب چلائے دھرنے ہوئے ماڈل ٹائون میں چودہ لوگ مار دیئے گئے اسلام آباد میں پارلیمنٹ اور آئین کو مقدس کہا گیا جبکہ تو سب سے بہتر جانتا  ہے مقدس عمارتیں وہ ہوتی ہیں جہاں سے لوگوں کو انصاف ملے یا مقدس عمارتیں وہ ہیں جنہیں تو نے مقدس قرار دیا ہے جیسے خانہ کعبہ اور بیت المقدس,اور مسجد ضرار ہمیشہ گرائی جاتی ہے اسی طرح اے میرے رب عظیم! تو سب سے بہتر جانتا ہے کہ مقدس کتابیں وہ چار آسمانی کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک جنیہں تُو نے نازل کیا ہے وہ نہیں جنہیں انسانوں نے تھوڑے سے نفع کی خاطر تبدیل کردیا یا مقدس وہ صحیفے ہیں جنہیں تُو نے انبیاء اور رسولوں پر نازل فرمایا جس کتاب میں تبدیلی ہوجائے  وہ کبھی مقدس نہیں ہوتی۔ 
اے ربِ کریم! اور ان لوگوں کو میں کیا کہوں کس سے فریاد کروں کس کے حضور اپنی درخواست پیش کروں سوائے تیرے کس سے فریاد کروں کیونکہ تو ہی ایک واحد اورعظیم ہستی ہے جو سب کی سنتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے اے میرے مالک میں تو صرف اُن لوگوں پر افسوس ہی کرسکتا ہوں جنہیں غریبوں کے ٹیکس سے بنی ہوئی اس مقدس عمارت پر جسے وہ مقدس کہتے تھے پڑے ہوئے غریبوں کے کپڑے تو نظر آگئے لیکن افسوس انہیں لیکن انہیں گولیوں سے چھلنی جسم اور زمین پر گرتی ہوئی لاشیں نظر نہ آئیں اے میرے  رب! کاش وہ پیٹ سے سوچنے کی بجائے دماغ سے سوچتے لیکن افسوس لوگ تو دُنیا کے بندے اور شیطان کے دوست ہیں انہیں انصاف سے کیا مطلب اے ربِ عظیم  میں تو زمین کا حقیر سا ذرہ ہوں صرف اپنی فریاد تیرے حضور پیش کرسکتاہوں اب تُو چاہے تو سُن اور اگر نہ چاہے تو نہ سُن لیکن میں تو صرف اتنا جانتا ہوں تو سب کی سُنتا ہے اور سب کچھ جانتا ہے
اے میرے خدا! میں کیا کروں کہاں جائوں کس سے فریاد کروں میری روح صحرا میں چیخی اس نے سمندر پر پرواز کی اور فریاد سنائی وہ کھیتوں میں پھری اور اپنا درد بیان کرتی رہی وہ جنگلوں میں گئی اور درد کے ساتھ چیخی اور چلائی اس نے پہاڑوں میں سفر کیا اور اپنی درد بھری کہانی سنائی وہ وقت کے نمرودوں اور فرعونوں کے سامنے گئی اور انہیں تنبیہہ کی کے ظلم مت کرو اس نے ایوانوں کا چکر لگایا اور اپنی درر کو پیش کیا وہ عدالتوں میں پھری کہ انصاف ملے لیکن انصاف نہ ملا شاید نقار خانے میں طوطی کی آواز کوئی نہیں سُنتا افسوس اکثریت جب بے ایمان، منافق، جھوٹی اور ریاکار ہوجائے تو مجھے اے میرے مالک بتا نیک لوگ کہاں جائیں اور وہ کس سے فریاد کریں اور کس سے انصاف مانگیں کیونکہ سچ کو کہیں دفن کردیا جاتا ہے۔ اتنا جھوٹ بولا جاتا ہے کہ سچ کا گمان ہونے لگتا ہے سب جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے کرپشن کون کررہا ہے دھاندلی سب کو پتا ہے کہ سب نے کی ہے سب جانتے ہیں کہ جس کا جہاں زور چلا اُس نے دھاندلی کی جس کا جہاں ہاتھ پڑتا ہے کرپشن کرتا ہے چھوٹا آدمی چھوٹی دھاندلی کرتا ہے بڑا آدمی بڑی دھاندلی کرتا ہے 
اسی طرح اے میرے رب! چھوٹا آد می چھوٹی کرپشن کرتا ہے بڑا آدمی بڑی کرپشن کرتا ہے اے مالکِ دوجہاں! افسوس اِس حمام میں تو سب ننگے ہیں اے مالکِ کائنات مجھے پلیز بتا میں کس سے پوچھوں میں کس سے فریاد کروں کون ہے جو تیرے سوا بتا سکتا ہے اور کون ہے جو تیرے سوا فریاد کو سُن سکتا ہے میں عاجزی سے پوچھتا ہوں کیا ایسا چور جو شیطان کا دوست ہو وہ کبھی اپنے قدموں کے نشان چھوڑے گا یا اپنے چوری کے ثبوت نہیں مٹادے گا افسوس لوگ چوری کرتے ہیں ڈاکہ ڈالتے ہیں لیکن اپنے قدموں کے نشان مٹا دیتے ہیں اپنے خلاف ثبوتوں کو ختم کردیتے ہیں کیونکہ اُن کے پاس ظاقت ہے اور وہ خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں اور ہر چیز خرید سکتے ہیں اے ربِ کریم یہ سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں یہ لوگوں کی عزت نفس خریدتے ہیں، یہ لوگوں سے اُن کی غربت خریدتے ہیں وہ غریب کیا کرے جس کے گھر میں  کھانے کو نہیں ہوگا وہ چند نوالوں کے عوض اِن کے ہاتھوں نہیں بکے گا خالی پیٹ تو کھانے کو مانگتا ہے ہر کوئی تو آزمائش کو نہیں سہہ سکتا۔
اے میرے مالک ہر کوئی تو بھوک برداشت نہیں کرسکتا ہر کوئی تو دُکھ نہیں جھیل سکتا کیا کریں جب بھوک اِن غریبوں کو ستاتی ہے اور اِن کے بچے جب بھوک سے بلکتے ہیں تو اے میرے رب افسوس یہ درندوں کے آلہ کار بن جاتے ہیں دہشت گردی کا بازار گرم کرتے ہیں، ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں، اغوا برائے تاون کرتے ہیں، بھتہ خوری کا گھناونا جرم کرتے ہیں غرض ہر جرم اپنے پیٹ کی خاطر کرتے ہیں اور حصہ اپنے پیچھے ڈوریاں ہلانے والوں کو پہنچاتے ہیں اور جب پکڑے جاتے ہیں تو خود پھانسیاں چڑھ جاتے ہیں اوراور اپنے پیچھے ڈوریاں ہلانے والوں کو مظبوط سے مظبوط کرتے چلے جاتے ہیں اور ڈوریاں ہلانے والے اِن کو استعمال کرکے ٹشو پیپر کی طرح پھینک دیتے ہیں کوئی یہ نہیں پوچھتا کہ تم دہشت گرد کیوں بنے، تمہیں ٹارگٹ کلر کس نے بنایا، کس نے تمہیں اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری پر آمادہ کیا کون لوگ تھے تمھارے پیچھے جب تک تم قابل استمعال تھے تمہاری حفاظت کرتا رہا لیکن جیسے ہی تم استعمال کے قابل نہیں رہے انہوں نے تمہیں ٹشو پیپر کی طرح اُٹھا کر پھینک دیا یا تمہیں دُنیا سے اُٹھا دیا گیا ۔
یا تم قانون کے ہاتھوں پکڑے گئے تو قانون نے یہ نہیں پوچھا کہ تم نے قتل کیوں کیا تم دہشت گرد کیوں بن گئے، تم اپنی بہن کی عزت بچاتے ہوئے قاتل بن گئے تم اپنے پیٹ کی بھوک سہتے سہتے خودکش بمبار بن گئے کیونکہ تم نے یہ سوچا کہ میں تو چلو اِس دنیا سے چلا جائوں گا لیکن میرے بعد میرے بھوکے ماں باپ کو اور میرے بھوکے بچوں کو کھانے کے چند لقمے مل جائیں گے قانون نے یہ نہیں پوچھا کہ یہ سب کچھ تم نے کیوں کیا کون لوگ تمہاری ڈوریاں ہلا رہے تھے اے میرے پروردگار میں تجھ سے عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ اِس دُنیا کا قانون اندھا ہوتا ہے وہ جرم پر سزا دیتا ہے وہ یہ دیکھتا ہے کہ جرم ہوا ہے وہ یہ نہیں دیکھتا کہ جرم کیوں ہوا ہے اے میرے پروردگار! مجھے بتا کہ اگر کسی کی بہن، بیٹی، یا ماں کی عزت لُٹ رہی ہو تو وہ کیا کرے۔ اے میرے رب مجھے بتا کہ اگر کوئی شخص اور اُس کے ماں باپ اور بیوی اور بچے کئی دن سے بھوکے ہوں تو وہ کیا کرے۔ اے میرے مالک! مجھے بتا اگر کسی کو عدالت سے در در دھکے کھانے کے باوجود انصاف نہ ملے تو وہ کیا کرے۔ اے رب مجھ بتا کہ اگر کسی کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد نوکری نہ ملے تو وہ کیا کرے انصاف سے بتا ہر شخص اتنی آزمائش برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتا وہ دہشت گرد بنتا ہے، ٹارگٹ کلر بنتا ہے، بھتہ خور بنتا ہے، یا اغوا برائے تاوان کا مجرم بنتا ہے اور اس کو اس راہ پر لگانے والے طاقت ور لوگ این ۔آر۔ او کرکے محفوظ رہتے ہیں اور دندناتے پھرتے ہیں۔
اے کائنات کے مالک اِن ریا کاروں، منافقوں، ڈراما بازوں اوردنُیا داروں نے اِس دنُیا کو جہنم بنادیا ہے وہ آنکھیں رکھتے ہیں پر دیکھ نہیں سکتے، وہ زبان رکھتے ہیں لیکن بول نہیں سکتے، وہ کان رکھتے ہیں پرسُن نہیں سکتے گویا کہ وہ اندھے گونگے اور بہرے ہیں۔ اے خدا وہ ظلم ہوتے دیکھتے ہیں لیکن اس کے خلاف اپنی زبان سے آواز بلند نہیں کرتے اور افسوس وہ اپنے کان بند کرلیتے ہیں اے میرے مالک مجھے بتا وہ لوگ جو نیک رہنا چاہتے ہیں اور سچائی کے راستے پر چلتے چلتے تھک سے گئے ہیں اُن کی آنکھیں ایک عرصے سے تیری رحمت کا انتظار کررہی ہیں کیونکہ اے میرے مالک میں نے سُنا ہے کہ نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ صرف بہتر لوگ تھے باقی مسلمان کہاں تھے میں لوگوں سے پوچھتا ہوں تو کسی کے پاس اس کا جواب نہیں ہوتا وہ بس ایک دوسرے پر الزا مات کی بارش کرکے اپنا دامن بچاتے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں نوح علیہ السلام نے لوگوں کو سچائی کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں کو اے مالک تیری راہ کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، لوط علیہ السلام نے لوگوں کو سچائی کا راستہ دکھایا اکثریت کہاں تھی، صالح علیہ السلام نے لوگوں کو سچے راستے کی طرف بلایا اکثریت کہاں تھی، شعیب علیہ السلام نے لوگوں کو ہدایت کی اکثریت کہاں تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل کو سیدھا راستہ دکھایا ان کی اکثریت نے ہمیشہ نافرمانی کی، زکریا علیہ السلام کو لوگوں کی اکثریت نے قتل کردیا، عیسیٰعلیہ السلام کو لوگوں کی اکثریت نے مخالفت کی اور ان ہی کی ایک شاگرد نے آپ کو پکڑوا دیا، رسول صلی علیہ والہ وسلم کو کفار کی اکثریت نے سخت اذیتیں دیں، حضرت علی علیہ السلام نے جب انصاف کا علم بلند کیا تو لوگوں کی اکثریت آپ کی مخالف ہوگئی۔
 حضرت امام حسین علیہ السلام کو سب چھوڑ گئے اور لوگوں کی اکثریت نے آپ کو شہید کردیا اور اے پاک پروردگار تُو تو اپنی پاک کتاب قرآن میں خود فرماتا ہے کہ اکثریت گمراہ ہے لیکن افسوس لوگ اکثریت کا راگ الاپتے ہیں، دھاندلی سب کرتے ہیں اور پھر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتے ہیں افسوس جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں اور کوئی شرم محسوس نہیں کرتے ہیں اے میرے رب میں نہیں جانتا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا ہے ہاں میں یہ ضرور جانتا ہوں کہ تو سب سے بہتر جاننے والا اور باخبر ہے تو اے میرے رب میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ ریت کے نیچے جو سچ دفن ہے ایسی ہوا چلا کہ سچ باہر آجائے کیونکہ لوگ اپنے قدموں کے نشانات مٹا دیتے ہیں، ثبوت اپنی طاقت کے بل پر ختم کردیتے ہیں اور لوگ اپنی جان کے خوف سے اندھے، گونگے اور بہرے بن جاتے ہیں اے میرے رب دیکھ یہ دُنیا ظلم و جور سے بھر گئی ہے بس لوگوں کو ہدایت عطاء فرما اور ان لوگوں پر جو کمزور کردیئے گئے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے اور نازل کر اپنی تلوار کو جو ظالموں کے ظلم کا خاتمہ کرے اور عدل و انصاف کا سورج طلوع ہو مالک تیرے وہ بندے جو تیرے راستے پر چلنا چاہتے ہیں وہ سخت پریشان ہیں مالک اپنے نیک بندوں کی آنکھوں کو قوت عطاء کر تاکہ وہ دیکھ سکیں، ان کی زبان کو قوت عطاء کر تاکہ وہ بول سکیں اور ان کے کانوں کو سماعت کی قوت عطاء کر تاکہ وہ سُن سکیں اے میرے رب جو اندھے ہیں ان کو بینائی عطاء کر، جو گونگے ہیں اُن کو قوت گویائی عطاء کر اور جو بہرے ہیں اُن کو قوت سماعت عطاء کر اور امام قائم حضرت امام مہدی علیہ السلام کو اپنی تلوار عطاء فرما اور اُن کا ظہور فرما تاکہ اس دنیا سے ظلم ختم ہو آمین

العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات  سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں  شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔ 




سید محمد تحسین عابدی

No comments:

Post a Comment