رب سے باتیں
اے میرے رب میرے پاک پروردگار تو اس کائنات کا مالک اور خالق ہے اور کائنات کے ہرذرے اور ہرچیز کو تو نے پیدا کیا ہے ہر جاندار اور بے جان سب تیرے ہی حکم کے تابع ہیں سورج چاند، ستارے، آسمان زمین سب تیرے حکم سے اپنی منزل کی طرف رواں دواں ہیں اور بے شک تیری مرضی کے بغیر کوئی پتا بھی نہیں ہل سکتا لیکن تو نے انسان کو خلق کیا اوراُس کو کو عمل کرنے کا اختیار عقل دے کر بھیجا کہ وہ اچھا عمل کرے یا برا عمل کرے اچھے عمل کی صورت میں اے میرے رب تو نے انسانوں سے جنت کا وعدہ کیا اور برے عمل کی صورت میں تو نے فرمایا جہنم سے ڈرایا کہ برے عمل کرنے والوں کو جہنم کی دہکتی ہوئی آگ میں ڈالا جائے گا یہی وجہ ہے کہ تو انسانوں کے اچھے اور برے عمل میں دخل نہیں دیتا اور اُن کو عمل کی پوری آزادی تو نے فراہم کی ہے لیکن اے مالکِ کائنات میں جو کہ زمین کا ایک حقیر سا ذرہ ہوں اس عقل کی مدد سے جو تیری عطاء کی ہوئی اتنا ضرور جانتا ہوں کہ تو نے ہم انسانوں کو دُنیا میں تنہا نہیں چھوڑا ان کی ہدایت کے لئے ، رسولوں، پیغمبروں، انبیاء، اماموں، اولیاء، قلندروں، صالحین اور نیک لوگوں کو چُنا اور انہیں تو نے منتخب کیا کہ وہ دُنیا کے بھٹکے ہوئے انسانوں کو سیدھا اور سچائی کا راستہ دکھائیں۔
اے رب عظیم میں جو زمین کا ایک حقیر رینگنے والا کیڑا ہوں تیرے دئیے ہوئے علم کی وجہ سے یہ جانتا ہوں کہ تو نے انسانوں کی ہدایت کے لئے انبیاء علیہ السلام پر صحیفے نازل کئے اور اپنی چار مقدس کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک نازل کیں تاکہ انسان اَن کتابوں کے ذریعے ہدایت پائیں اور سیدھے راستے کو اپنائیں تو نے چاہا کہ انسان جس کو اس دُنیا میں آزمائش کے لئے بھیجا ہے وہ تجھ پر، تیرے انبیاء، اماموں پر اور تیری نازل کی ہوئی مقدس کتابوں پر ایمان لائیں اور سیدھا اور ہدایت کا راستہ اپنائیں اور جنت کے حق دار بن جائیں اور تُو نے تو انسانوں پر اتنی زیادہ شفقت اور مہربانی بھی کی کہ اگر انسان کوئی غلطی، گناہ یا کوتاہی کر بیٹھے تو اپنی غلطیوں، کوتاہیوں اور گناہوں سے توبہ کرلے اور معافی مانگ لے تو اے ربِ کریم تو اُس گناہ گار انسان کو اپنی رحمت سے معاف فرما دے گا اور یقینا تو رحیم اور کریم اور بڑا معاف کرنے والا ہے۔ لیکن اے میرے خدا میں جو ایک انتہائی کمزور انسان ہوں نے جب اِس دُنیا میں انسانوں کو دیکھا اور اُن کی تاریخ کی تاریخ کو پڑھا تو میرا پورا وجود لرز گیا کہ انسان نے، اے میرے رب تھجھے اپنا دوست بنانے کے بجائے شیطان کو اپنا دوست بنا لیا (جبکہ تو نے شیطان کو انسان کا کھلا دشمن قرار دیا) اے میرے مالک و خالق جب میں انسان کی حالت دیکھتا ہوں تو مجھے یہ کڑوی سچائی نظر آتی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹے ہابیل اور قابیل تھے لیکن افسوس کہ قابیل نے اپنے اختیار سے جو اللہ نے اسے دیا تھا ہابیل کو قتل کردیا اور شیطان کو اپنا دوست بنا لیا یہ دُنیا میں انسان کا انسان کو قتل کرنے کا پہلا واقع تھا اور میرے مالک شاید یہ انسان کا پہلا عظیم گناہ تھا جس کی وجہ سے اس زمین پر سب سے پہلے انسان نے ہی انسان کا خون بہایا۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے مالکِ ارض و سما میں انتہائی عاجزی سے تجھ سے کہتا ہوں کہ تو نے اپنے پاک نبی حضرت نوح علیہ السلام کو دُنیا میں بھیجا کہ تیرے بندے اور تیرے پیدا کئے ہوئے انسان راہ ہدایت پائیں اور نوح تقریباً نو سو سال لوگوں کو تبلیغ کرتے رہے اور اُن کو تیرے راستے کی طرف محبت اور پیار سے بلاتے رہے لیکن افسوس انہوں نے تیرے بھیجے ہوئے پیغام کو رد کردیا اور شیطان سے دوستی کرلی اور نوح پر اور تیرے پیغام ہدایت پر اس سارے عرصہ میں صرف 33 کے قریب لوگ ایمان لائے اور وہ نوح کو ہنسی ٹھٹوں میں اُڑایا اور اُن کا مذاق اُڑاتے رہے تو جب مالک نوح اُن لوگوں سے مایوس ہوگئے تو تیرا عذاب آن پہنچا اور جلتے ہوئے تندور سے پانی ابل پڑا اورساری زمین اور پہاڑ پانی میں ڈوب گئے اور تمام ظالم ہلاک ہوگئے نوح اور ان کے گنتی کے چند ساتھی اُس کشتی میں محفوظ رہے یہ سوچنے کا مقام ہے کہ اکثریت ظالم تھی اور بہت کم لوگ نیکی کو اپنانے والے تھے۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے کائنات کو پیدا کرنے والے میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں میں نے اِس دُنیا کی طرف کان لگائے تو میں نے دیکھا کہ تو نے اپنے پاک نبی حضرت ابراہیم کو بھیجا تاکہ نمرود جو خدائی کا دعوے دار تھا اور خود کو خدا کہلاتا تھا کو سیدھا اور سچا راستہ دکھائے اورحضرت ابراہیم علیہ السلام نے جب سب بت پرست اور ظالم اور نمرود کو خدا سمجھنے والے جشن میں گئے ہوئے تھے تو حضرت ابراہیم نے اُن کے سب بتوں کو توڑ دیا اور بڑے بت کی گردن میں کلہاڑا ڈال دیا جب لوگ واپس آئے تو انہوں نے پوچھا کس نے ہمارے بُتوں کا یہ حشر کیا ہے تو انہیں علم ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے یہ کام کیا ہے تو نمرود نے حضرت ابراہیم علیہ السلام سے پوچھا تم نے یہ کام کیا ہے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اس بڑے بت سے پوچھ لو یہ بتائے گا نمرود کو کہنا پڑا کہ یہ بُت بول نہیں سکتا تو حضرت ابراہیم نے کہا کہ پھر ایسے بُت کو کیوں پوجتے ہو جو بول بھی نہیں سکتا نمرود کے پاس حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بات کا کا کوئی جواب نہ تھا اُس نے آپ کو آگ میں ڈالنے کا حکم دیا لیکن اے پاک پروردگار تُو نے اپنے نبی علیہ السلام کو بچا لیا لیکن افسوس اس معجزے کے باوجود صرف گنتی کے چند لوگ ایمان لائے لیکن لوگوں کی اکثریت گمراہی کے گڑھے میں گری رہی انتہائی قلیل لوگ ایمان لانے والے تھے اللہ نے نمرود پر ایک مچھر کو اُس پر مسلط کردیا جس سے وہ ہلاک ہوا افسوس انسان سوچتا اورسمجھتا۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے مالک کوئی مانے یا نہ مانے تُو ہی ایک اللہ ہے اور سب ہی تیرے محتاج ہیں ہاں جس کو تو چاہے قدرت اور معجزے عطاء کرے میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سنا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اپنی قوم بنی اسرائیل کو فرعون جیسے خدائی کے دعوے دار اور ظالم سے اللہ کی مدد سے رہائی دلائی لیکن افسوس بنی اسرائیل جو تیری لاڈلی قوم تھی اور تو نے ان کو من و سلویٰ جیسی نعمت عطاء کی لیکن افسوس یہ قوم ہمیشہ تیری نافرمانی کرتی رہی اور جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہ طور پر توریت کی آیات لینے کے لئے گئے تو ان کی قوم نے بچھڑے کو معبود بنا کر اس کی پوجا شروع کردی غرض یہ قوم جو ہر نافرمانی کرتی تھی اور اے میرے مالک تو انہیں معاف کرتا رہا لیکن یہ اپنے نبی کی توہین کرتے تھے ان کی اکژیت نافرمان تھی اور شیطان کی دوست اور برائیوں کی طرف مائل تھی جبکہ بہت تھوڑے لوگ تھے جو نیک اور ایماندار تھے۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے زندگی اور موت کے مالک میں عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سُنا قوم عاد اور قوم ثمود قوم شعیب اور قوم لوط نے شیطان دوستی کی اور اس کی راہ کو اپنایا اُن قوموں کی طرف جو انبیاء اور ہیغمبر علیہ السلام بھیجے گئے تھے اُن کو جھٹلایا اور ان کا م مذاق اُڑاتے رہے اور ان کو ہنسی اور ٹھٹھوں میں اُڑاتے رہے اور اُن سے کہتے رہے کہ وہ عذاب جن سے تم ہمیں ڈراتے ہو ہم پر لے آئو انہوں نے ناقہ صالح کو قتل کرڈالا ان سن قوموں کے غرور اور تکبر کی کوئی انتہا نہ تھی افسوس ان ظالموں نے اللہ کے نبیوں اور نیک اور صالح بندوں کو قتل کیا اور اُن کو طرح طرح کی اذیتیں دی تواے مالکِ دو جہاں تیرا غضب ان پر بھڑکا اور تُو نے ان سب قوموں کو عذاب سے دو چار کر دیا اور سب کو ہلاک کردیا یہ تیرے لئے بہت آسان تھا لیکن افسوس انسان اس بات کو نہیں سمجھتا ہے ان سب قوموں کے صرف گنتی کے چند لوگ تھے جو ایمان لائے تھے لیکن افسوس عظیم ترین اکثریت گمراہی اور گناہوں کی دلدل میں دھنسی ہوئی تھی۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے رحیم، اے کریم میں تجھ سے عاجزئ سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کرسُنا کہ تو نے بنی اسرائیل کی گمشدہ بھیڑوں کی ہدایت کے لئے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بغیر باپ کے اس دُنیا میں بھیجا یہ ایک تیری ایک کھلی ہوئی نشانی اور معجزہ تھا لیکن لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی والدہ پر الزام لگا دیا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے تیرے اِذن سے ان گمراہ لوگوں سے کلام کیا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اور مجھے نبوت اور کتاب عطاء کی گئی ہے لیکن لوگ اتنی کھلی نشانی کے بعد گمراہی کا شکار رہے حضرت عیسیٰ کو اے ربِ کریم تو نے مُردوں کو زندہ کرنے اور بیماروں کو شفا دینے جیسے معجزات عطاء کئے تھے لیکن اتنی کھلی نشانیاں دیکھنے کے باوجود لوگوں کی گمراہی دُور نہ ہوئی اور آپ کے بارہ شاگردوں میں سے ایک نے آپ علیہ السلام کو پکڑوا دیا اور سب حضرت عیسیٰ کو چھوڑ کر بھاگ نکلے لیکن اے مالک تو نے اپنے نبی کو بچا لیا اور آسمان پر اُٹھا لیا لوگوں نے حضرت عیسیٰ کی جگہ اور کو صلیب دے دی لوگوں کی اکثریت گمراہی کا شکار رہی اور ایمان لانے والے بہت تھوڑے تھے افسوس صد افسوس۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے پاک پروردگار میں تجھ سے عاجزی کے ساتھ کہتا ہوں کہ میں ایک کمزرو اور ناتواں انسان ہوں کہ میں نے کان لگا سُنا کہ اور جانا کہ تو نے انسانوں کی ہدایت کے لئے صحفیے اور چار مقدس آسمانی کتابیں توریت، زبور، انجیل اور قرآن پاک نازل کیں تاکہ تیرے بندے اور لوگ گمراہی کا شکار ہو کر جہنم کی طرف نہ جائیں تو انسانوں پر کتنا شفیق اور مہربان ہے لیکن افسوس انسانوں نے تیری نازل کی ہوئی کتابوں میں اپنے تھوڑے سے فائدے کے لئے بڑی تبدیلیاں کیں اور شیطان سے دوستی کرلی اور اگر تو اپنی آخری کتاب قرآن پاک کی حفاظت کا خود ذمہ نہ لیتا تو شاید یہ انسان جسے تو نے فرمایا ہے کہ وہ خسارے میں ہے مجھے ڈر ہے اُس میں بھی تبدیلی کردیتا لیکن تیرے حفاظت کے ذمہ کی وجہ سے قرآن پاک محفوظ ہے اور انسانوں کے لئے مینارہ نور ہے مالکِ کائنات توریت، زبور اور انجیل میں تبدیلیوں جن قوموں پر یہ کتابیں نازل ہوئیں ان کی بہت بڑی اکثریت نے قبول کرلیا ہے اور اِن قوموں کے بہت ہی کم لوگ ہیں جو یہ مانتے ہیں کہ اِن کتابوں میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور شیطان کی دوستی کو نہ اپناتا تو یہ دنیا جنت کی مانند ہوتی۔
اے رحمان، اے رحیم، اے کریم میں جو زمین کا ایک ذرہ ہوں اور زمین پر رینگنے والا ایک حقیر کیڑا ہوں یا شاید ننھا سا جگنو ہوں اور بہت ہی کمزور اور ناتواں ہوں میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سنا کہ تو نے اس دُنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے سب سے پیارے حبیب اور اور سب سے افضل بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجا اور اُن کھلا معجزہ قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا اور حکم دیا کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائیں تو آپ کی قوم قریش نے آپ کی مخالفت پر کمر کس لی اور آپ کو ہر طرح اذیت دی لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطاء فرمائی اور اسلام کا نام بلند ہوا اور کفار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن افسوس یہ ایک تلخ اور کڑوی سچائی ہے کہ جب آپ نے آخری حج کیا اور مسلمانوں کے ساتھ واپس غدیروخم کے مقام پر پہنچے یہ ایسا مقام تھا جہاں سے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا ہوکر اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنا تھا کہ آپ نے اللہ کےحکم سے لوگوں کو منبر بنانے کا حکم دیا اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ کے اے لوگوں کیا تم
مجھے اپنا مولا اور آقا سمجھتے ہو سب نے کہا جی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمارے مولا اور آقا ہیں اور آپ ہماری جانوں پر اختیار رکھتے ہیں اس پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے قریب بلایا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا آج سے جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السلام اُس کا مولا ہے سب مسلمانوں نے اس پر حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور کہا آج سے آپ بھی ہمارے مولا اور آقا ہوگئے ہیں اس موقع پر سب مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا مولا
اور آقا تسلیم کیا اور اس کے بعد مسلمان اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے لیکن افسوس اللہ کے رسول نے غدیر و خم کے مقام پر اللہ کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا جو اعلان کیا تھا اسے مسلمان بالکل بھول گئے اور مسلمانوں کی اکثریت جس نے حضرت علی علیہ السلام کو رسول کے سامنے اپنا مولا اور آقا مانا تھا بھول گئے اور اپنا انسان چن لیا اللہ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور اکثریت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تو اے میرے وجود کے مالک میں یقین سے کہتا ہوں کہ 61 ہجری میں کربلا کا واقع کبھی بھی پیش نہ آتا میرے مالک میں انتہائی تلخ اور کڑوی سچائی تیرے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں کیونکہ تو ہر چیز سے بہتر جانتا ہے اور تویقیناً سب سے بہتر علم رکھنے والا ہے تو میں ایک سوال کرتا ہوں اور اپنا مقدمہ تیرے حضور پیش کرتا ہوں کہ جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے بہتر قلیل ساتھیوں کو
یزید کے ایک بہت بڑے لشکر نے گھیر لیا تو وہ لشکر کے لوگ کیسے مسلمان تھے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ رسول کے وہ پیارے نواسے ہیں جن کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے اور جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں تھیں کی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام دنیا میں میرے دو پھول ہیں یا حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں لیکن پھر بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنا چاہتے تھے میں تو اے ربِ ذوالجلال تجھ کو پکارتا ہوں اور پوچھتا ہوں کے اس وقت عرب، ایران، مصر، شام اور ھندوستان کے ساحل تک اور افریقہ تک مسلمان بستے تھے وہ اور بہت سے مسلمان ایسے تھے جنھوں نے رسول کا زمانہ بھی دیکھا تھا وہ سب کیوں خاموش رہے اور انہوں نے حضرت امام حسین کی مدد کیوں نہ کی اے مالک دو جہاں میرے ذہن اور عقل کو یہ سوال بار بار ڈستا ہے کہ صرف بہتر بہترین انسان امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے باقی مسلمانوں کی اکثریت کہاں تھی
کیا مسلمانوں کو نہیں علم تھا کہ یہ رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کے پیارے نواسے ہیں ہمیں ان کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیئے لیکن افسوس اپنے جیسے لوگوں کو چُننے والے لوگ ہمیشہ نیک لوگوں کو مشکل وقت میں، اے میرے مالک کیوں چھوڑ جاتے ہیں افسوس صد افسوس اے میرے مالک کیا کسی انسان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ لوگوں کی اکثریت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ کیوں چھوڑ گئی کیا وہ اکثریت خود کو مسلمان نہیں کہتی تھی کسی کے پاس اس بات کا اے میرے مالک جواب نہیں ہے ہاں اے میرے مالک لیکن تُو ضرور اس بات کا جواب جانتا ہے اے میرے پاک پروردگا میں تجھ سے عاجزی سے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر پوچھتا ہوں کہ جب اکثریت، چور، بے ایمان، منافق، ڈاکو اور ظالم بن جائے تو اے میرے مالک پھر نیک، متقی، پرہیزگار اور تیرے چُنے ہونے بندے جو اِس دنیا میں ایمانداری سے رہنا چاہتے ہیں وہ کہاں جائیں کیا وہ کیا کریں جب ظلم بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ جائے کہ ظالم ظُلم کرتے کرتے نہ تھکے اور مظلوم کی آواز اتنی کمزور ہوجائے تو وہ ان کے پاس تیرے سوا کوئی چارا نہیں اے میرے مالک میں دیکھتا ہوں کہ گناہ بڑھتے جاتے ہیں اور نیک لوگوں کا مذاق اُڑیا جاتا ہے جس کا باپ رشوت نہیں لیتا اس کی اولاد اسے پاگل سمجھتی ہے ہر شخص دُنیا کی کشش کی طرف تیزی سے بھاگ رہا ہے لوگ ایک دوسرے کو ذرا ذرا سی بات پر قتل کر دیتے ہیں۔ اے مالک اے میرے رب کوئی کام رشوت، سفارش، اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا جو گناہ نہیں کرنا چاہتا وہ بھی گناہ پر مجبور کردیا گیا ہے نیکی تو ایسی ہی ہے جیسے آٹے میں نمک ہر شخص نے جھوٹ پر کمر باندھ رکھی ہے ہر طرف اے معبود نفرت کا بازار گرم ہے لوگ ایک دوسرے سے صرف نفرت کرکے جیتے ہیں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو بدھ مت، سکھ اور تجھ کو نہ ماننے والے سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں کہیں شیعہ، سنی ، دیوبندی، بریلوی نفرت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں تو کہیں، پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، مہاجر نفرتوں کی آگ میں جل رہے ہیں
اے میرے معبود میں تجھ سے عاجزی سے فریاد کرتا ہوں کے کیا ابھی یہ دنیا ظُلم و جور سے نہیں بھری ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے اے پاک پروردگار تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اس دنیا میں حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور وہ اس دنیا میں عدل قائم کریں گے تو اے میرے مالک تیرے پیارے رسول کی حدیث غلط نہیں ہوسکتی تو اے رب عظیم میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ اس دنیا میں وہ لوگ جو نیکی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں سخت ترین مشکل اور مصیبت میں ہیں اے میرے رب میری التجا سُن اور تمام نیک لوگوں کی التجا سن یہ دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہے اب اپنی رحمت نازل فرما اور امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دے اور امام مہدی کا ظہور فرما دے ہم لوگ تھک گئے ہیں انتظار کرتے کرتے ہم ٹوٹتے چلے جارہے ہیں تجھے اپنے تمام انبیاء، اپنے تمام اماموں، اولیا، اور تمام نیک لوگوں کا واسطہ اب بس اپنی رحمت نازل کر اور ظہور فرما دے مالک ہمارے آنسوئوں کو اور ہماری فریاد کو سُن ہم سے ناراض مت ہو ہم بہت کمزور کردئیے گئے ہیں اور ہم کیا کریں کدھر جائیں ہمارا تیرے سوا کوئی سہارا نہیں ہے اے میرے مالک دیکھ یہ دنیا گمراہی کے گڑھے میں دھنستی چلی جارہی ہے اس کو اے مالک نکال سکتا ہے اور لوگوں کو ہدایت عطاء کرسکتا ہے۔
العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔
اے رحمان، اے رحیم، اے کریم میں جو زمین کا ایک ذرہ ہوں اور زمین پر رینگنے والا ایک حقیر کیڑا ہوں یا شاید ننھا سا جگنو ہوں اور بہت ہی کمزور اور ناتواں ہوں میں تجھ سے عاجزی سے کہتا ہوں کہ میں نے کان لگا کر سنا کہ تو نے اس دُنیا میں انسانوں کی ہدایت کے لئے اپنے سب سے پیارے حبیب اور اور سب سے افضل بندے حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تمام جہانوں کے لئے رحمت العالمین بنا کر بھیجا اور اُن کھلا معجزہ قرآن پاک کی صورت میں نازل فرمایا اور حکم دیا کہ لوگوں کو ہدایت کی طرف بلائیں تو آپ کی قوم قریش نے آپ کی مخالفت پر کمر کس لی اور آپ کو ہر طرح اذیت دی لیکن اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی عطاء فرمائی اور اسلام کا نام بلند ہوا اور کفار کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا لیکن افسوس یہ ایک تلخ اور کڑوی سچائی ہے کہ جب آپ نے آخری حج کیا اور مسلمانوں کے ساتھ واپس غدیروخم کے مقام پر پہنچے یہ ایسا مقام تھا جہاں سے مسلمانوں کو ایک دوسرے سے جدا ہوکر اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹنا تھا کہ آپ نے اللہ کےحکم سے لوگوں کو منبر بنانے کا حکم دیا اور منبر پر بیٹھ کر ارشاد فرمایا کہ کے اے لوگوں کیا تم
مجھے اپنا مولا اور آقا سمجھتے ہو سب نے کہا جی اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ ہمارے مولا اور آقا ہیں اور آپ ہماری جانوں پر اختیار رکھتے ہیں اس پر آپ نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے قریب بلایا اور آپ نے حضرت علی علیہ السلام کا ہاتھ بلند کیا اور فرمایا آج سے جس کا میں مولا ہوں یہ علی علیہ السلام اُس کا مولا ہے سب مسلمانوں نے اس پر حضرت علی علیہ السلام کو مبارک باد دی اور کہا آج سے آپ بھی ہمارے مولا اور آقا ہوگئے ہیں اس موقع پر سب مسلمانوں نے حضرت علی علیہ السلام کو اپنا مولا
اور آقا تسلیم کیا اور اس کے بعد مسلمان اپنے اپنے گھروں کی طرف لوٹ گئے لیکن افسوس اللہ کے رسول نے غدیر و خم کے مقام پر اللہ کے حکم سے حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کا جو اعلان کیا تھا اسے مسلمان بالکل بھول گئے اور مسلمانوں کی اکثریت جس نے حضرت علی علیہ السلام کو رسول کے سامنے اپنا مولا اور آقا مانا تھا بھول گئے اور اپنا انسان چن لیا اللہ کاش انسان سوچتا اور سمجھتا اور اکثریت صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی تو اے میرے وجود کے مالک میں یقین سے کہتا ہوں کہ 61 ہجری میں کربلا کا واقع کبھی بھی پیش نہ آتا میرے مالک میں انتہائی تلخ اور کڑوی سچائی تیرے سامنے پیش کرنے کی جرات کر رہا ہوں کیونکہ تو ہر چیز سے بہتر جانتا ہے اور تویقیناً سب سے بہتر علم رکھنے والا ہے تو میں ایک سوال کرتا ہوں اور اپنا مقدمہ تیرے حضور پیش کرتا ہوں کہ جب کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے بہتر قلیل ساتھیوں کو
یزید کے ایک بہت بڑے لشکر نے گھیر لیا تو وہ لشکر کے لوگ کیسے مسلمان تھے کہ وہ اچھی طرح جانتے تھے کہ یہ رسول کے وہ پیارے نواسے ہیں جن کو رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے کندھوں پر بٹھاتے تھے اور جن کے بارے میں رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیثیں تھیں کی حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام دنیا میں میرے دو پھول ہیں یا حسن اور حسین جوانان جنت کے سردار ہیں لیکن پھر بھی حضرت امام حسین علیہ السلام کو شہید کرنا چاہتے تھے میں تو اے ربِ ذوالجلال تجھ کو پکارتا ہوں اور پوچھتا ہوں کے اس وقت عرب، ایران، مصر، شام اور ھندوستان کے ساحل تک اور افریقہ تک مسلمان بستے تھے وہ اور بہت سے مسلمان ایسے تھے جنھوں نے رسول کا زمانہ بھی دیکھا تھا وہ سب کیوں خاموش رہے اور انہوں نے حضرت امام حسین کی مدد کیوں نہ کی اے مالک دو جہاں میرے ذہن اور عقل کو یہ سوال بار بار ڈستا ہے کہ صرف بہتر بہترین انسان امام حسین علیہ السلام کے ساتھ تھے باقی مسلمانوں کی اکثریت کہاں تھی
کیا مسلمانوں کو نہیں علم تھا کہ یہ رسول صلی علیہ وآلہ وسلم کے پیارے نواسے ہیں ہمیں ان کے دامن کو نہیں چھوڑنا چاہیئے لیکن افسوس اپنے جیسے لوگوں کو چُننے والے لوگ ہمیشہ نیک لوگوں کو مشکل وقت میں، اے میرے مالک کیوں چھوڑ جاتے ہیں افسوس صد افسوس اے میرے مالک کیا کسی انسان کے پاس اس بات کا جواب ہے کہ لوگوں کی اکثریت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ساتھ کیوں چھوڑ گئی کیا وہ اکثریت خود کو مسلمان نہیں کہتی تھی کسی کے پاس اس بات کا اے میرے مالک جواب نہیں ہے ہاں اے میرے مالک لیکن تُو ضرور اس بات کا جواب جانتا ہے اے میرے پاک پروردگا میں تجھ سے عاجزی سے اپنے دونوں ہاتھ جوڑ کر پوچھتا ہوں کہ جب اکثریت، چور، بے ایمان، منافق، ڈاکو اور ظالم بن جائے تو اے میرے مالک پھر نیک، متقی، پرہیزگار اور تیرے چُنے ہونے بندے جو اِس دنیا میں ایمانداری سے رہنا چاہتے ہیں وہ کہاں جائیں کیا وہ کیا کریں جب ظلم بڑھتے بڑھتے اتنا بڑھ جائے کہ ظالم ظُلم کرتے کرتے نہ تھکے اور مظلوم کی آواز اتنی کمزور ہوجائے تو وہ ان کے پاس تیرے سوا کوئی چارا نہیں اے میرے مالک میں دیکھتا ہوں کہ گناہ بڑھتے جاتے ہیں اور نیک لوگوں کا مذاق اُڑیا جاتا ہے جس کا باپ رشوت نہیں لیتا اس کی اولاد اسے پاگل سمجھتی ہے ہر شخص دُنیا کی کشش کی طرف تیزی سے بھاگ رہا ہے لوگ ایک دوسرے کو ذرا ذرا سی بات پر قتل کر دیتے ہیں۔ اے مالک اے میرے رب کوئی کام رشوت، سفارش، اور کمیشن کے بغیر نہیں ہوتا جو گناہ نہیں کرنا چاہتا وہ بھی گناہ پر مجبور کردیا گیا ہے نیکی تو ایسی ہی ہے جیسے آٹے میں نمک ہر شخص نے جھوٹ پر کمر باندھ رکھی ہے ہر طرف اے معبود نفرت کا بازار گرم ہے لوگ ایک دوسرے سے صرف نفرت کرکے جیتے ہیں مسلمان، عیسائی، یہودی، ہندو بدھ مت، سکھ اور تجھ کو نہ ماننے والے سب ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں کہیں شیعہ، سنی ، دیوبندی، بریلوی نفرت کا راگ الاپتے نظر آتے ہیں تو کہیں، پنجابی، سندھی، پٹھان، بلوچی، مہاجر نفرتوں کی آگ میں جل رہے ہیں
اے میرے معبود میں تجھ سے عاجزی سے فریاد کرتا ہوں کے کیا ابھی یہ دنیا ظُلم و جور سے نہیں بھری ہر طرف ظلم کا بازار گرم ہے اے پاک پروردگار تیرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث ہے کہ جب یہ دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی تو اس دنیا میں حضرت امام مہدی علیہ السلام تشریف لائیں گے اور وہ اس دنیا میں عدل قائم کریں گے تو اے میرے مالک تیرے پیارے رسول کی حدیث غلط نہیں ہوسکتی تو اے رب عظیم میں تجھ سے ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ اس دنیا میں وہ لوگ جو نیکی کا راستہ اپنانا چاہتے ہیں سخت ترین مشکل اور مصیبت میں ہیں اے میرے رب میری التجا سُن اور تمام نیک لوگوں کی التجا سن یہ دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہے اب اپنی رحمت نازل فرما اور امام مہدی علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھیج دے اور امام مہدی کا ظہور فرما دے ہم لوگ تھک گئے ہیں انتظار کرتے کرتے ہم ٹوٹتے چلے جارہے ہیں تجھے اپنے تمام انبیاء، اپنے تمام اماموں، اولیا، اور تمام نیک لوگوں کا واسطہ اب بس اپنی رحمت نازل کر اور ظہور فرما دے مالک ہمارے آنسوئوں کو اور ہماری فریاد کو سُن ہم سے ناراض مت ہو ہم بہت کمزور کردئیے گئے ہیں اور ہم کیا کریں کدھر جائیں ہمارا تیرے سوا کوئی سہارا نہیں ہے اے میرے مالک دیکھ یہ دنیا گمراہی کے گڑھے میں دھنستی چلی جارہی ہے اس کو اے مالک نکال سکتا ہے اور لوگوں کو ہدایت عطاء کرسکتا ہے۔
العجل العجل العجل یا صاحب الزماں امام مہدی علیہ السلام
اگر کسی کو میری کسی بات سے کوئی اختلاف ہے تو وہ اختلاف رکھ سکتا ہے کیونکہ اختلاف رائے ہر ایک کا حق ہے اسی طرح میرا بھی حق ہے کہ میں دوسروں سے اختلاف رکھ سکوں اگر کسی کو میری کسی بات سے دکھ پہنچا ہو تو اس کے لئے معذرت خواہ ہوں کیونکہ یہ میری اپنے نظریات ہیں شاید کسی کو سمجھ آسکیں۔
سید محمد تحسین عابدی
No comments:
Post a Comment