Thursday 28 May 2015

#axact ایگزیکٹ جعلی کمپنی

ایگزیکٹ جعلی کمپنی

پاکستان میں قائم ایک ایسی جعلی کمپنی تھی جس نے جعلی ڈگریاں اور ڈپلوموں کی فروخت کے ذریعے اربوں روپے کمائے اس  اوراس حرام کی کمائی ہوئی ناجائز دولت کے بل بوتے پر  اپنی ناپاک خواہشات کو پورا کرنے کے لئے پاکستان میں ایک بہت بڑے میڈیا گروپ بول کا اجرا کیا تاکہ پاکستان میں بڑے بڑے لوگوں کو  بلیک میل کرکے اور زیادہ رقم حاصل کی  جاسکے اور پھر اس حرام کی کمائی کے ذریعے پاکستان پر حکومت کرنے کے خواب کو پورا کیا جاسکے اس سارے سکینڈل کے پیچھے بادی النظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی کچھ انتہائی طاقت ور شخصیات کا ہاتھ ہے کیونکہ طاقت ور شخصیات کے آشیرباد کے بغیر یہ کام ناممکن نظر آتا ہے اس گہری سازش کے پیچھے کن نادیدہ عناصر کا ہاتھ ہے یہ تو آنے والا بے رحم وقت بتائے گا کیونکہ کچھ عناصر سیاست اور عوام میں اپنی مقبولیت میں  انتہا ئی  کمی کے بعد یہ اندازہ لگا چکے تھے کہ پاکستان کی سیاست میں اب ان کا مقام ختم ہوچکا ہے اور سیاست کیونکہ ان کا ذریعہ معاش بن چکا تھا اس وجہ سے انہوں نے ایگزیکٹ کو استعمال کرنے کا سوچا اور ان اندیکھے ہاتھوں کی سرپرستی میں جعلی ڈگریوں کی فروخت کا یہ کام دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرتا رہا 

بہت سی میڈیا کی شخصیات نے بغیر تحقیق کے بول ٹی وی چینل کی طرف سے پیش کئے گئے بہترین پیکج کو قبل کرتے ہوئے اس چینل کی آفر کو قبول کیا اور آج حقیقت کھلنے پر نہ صرف اپنے منہ چھپاتے پھر رہے ہیں بلکہ ان کو روزگا کے لالے بھی پڑ گئے ہیں لیکن کچھ افراد ایسے بھی یقینا تھے جن کو اندر کی صورت حال کا اچھی طرح علم تھا لیکن لیکن دولت کی ہوس نے اُن کی آنکھوں پر پٹی باندھ رکھی تھی لیکن جیسے ہی ایگزیکٹ پر برا وقت آیا وہ  پرندے کی طرح ایگزیکٹ کا بسرا چھوڑ کر کر نئے بسرے کی تلاش میں اُڑ گئے کیونکہ اُن کو علم ہوگیا تھا کہ یہاں ان دانہ پانی ختم ہوگیا ہے ۔
ایگزیکٹ کے آفس سے لاکھوں کی تعداد میں جعلی ڈگریوں اور ڈپلوموں کا برآمد ہونا اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ جعلی ڈگریوں کا یہ گھناونا کاروبار انتہائی بڑے پیمانے پر ہورہا تھا اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنے بڑے پیمانے پر ہونے والا یہ کاروبار بغیر کسی بڑی سرپرستی کے ہورہا ہو اور حکومت اس سے بے خبر ہو اور اپنی آنکھیں کبوترکی طرح بند کئے رکھے یقینا حکومت کے علم میں بہت کچھ تھا لیکن افسوس ہمارے عدالتی نظام پر کہ عدالت نے ایگزیکٹ کو سٹے آڈرد کی چھتری فراہم کررکھی تھی اور دوسری طرف حکومت کی سیاسی مصلحتیں بھی نظر آتی ہیں۔
ہمارے ملک میں حکومتیں دُور دُور کی کوڑی تو ڈھونڈھ کر لاتی ہیں لیکن یہ دیکھنا گوارا نہیں کرتیں کہ اُن کی ناک کے نیچے کیا ہورہا ہے اقدام جب اُٹھایا جاتا ہے جب بہت سارا پانی سر سے گزرجاتا ہے یا پھر بیرونی میڈیا میں خبر کی وجہ سے کوئی تہلکہ مچتا ہے بھلا ہو امریکی اخبار کا جس نے ایگزیکٹ آئی ٹی کمپنی کو بے نقاب کیا تو حکومت کو بھی ہوش آیا کہ اب اقدام کرنا پڑے گا ورنہ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ امریکی اخبار میں خبر کی آمد سے پہلے ہی ایگزیکٹ کے خلاف کاروائی عمل لائی جاتی تو کم از کم دنیا میں پاکستان کی جگ ہنسائی نہ ہوتی اور پاکستان اور اس کی عوام بہت ساری زحمتوں سے بچ سکتی تھی کیا حکومت کو ایگزیکٹ کے بارے میں علم نہیں تھا یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے اگر حکومت کو ایگزیگٹ کے بارے میں علم نہیں تھا تو پھر اسے حکومت کی ناکامی تصور کیا جاسکتا ہے اور اگر حکومت کو علم تھا تو پھر حکومت نے طاقت ور شخصیات کے خوف سے کاروائی کیوں نہیں کی ظاہر ہے دونوں صورتوں میں حکومت
کو جواب دینا چاہیئے۔
حکومت نے تھوڑی سی جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایگزیکٹ کے خلاف مقدمہ تو ایف آئی اے کے ذریعے درج کرادیا ہے لیکن یہ تو عوام کے سامنے سب کچھ ہے اور عوام اپنی کھلی آنکھوں کے ساتھ سب کچھ دیکھ رہی ہے لیکن پسِ پردہ بھی بہت ساری چیزیں چل رہی ہوتی ہیں جن کا علم لوگوں کو نہیں ہوتا اور نہ ہی ہونے دیا جاتا ہے کیونکہ اس قسم کے معاملات میں بہت سارے سیاسی کھیل کھیلے جاتے ہیں، طاقت ور شخصیات کا پریشر الگ ہوتا ہے کچھ لو اور دو کی پالیسی اپنائی جاتی ہے عدالتوں سے مبہم فیصلے آتے ہیں عوام اور میڈیا پر کچھ عرصہ شور مچتا ہے اور پھر معاملہ کسی بھولی بسری یاد کی طرح دبا دیا جاتا ہے اور کسی نئے سکینڈل کا شور مچتا ہے، ٹاک شوز ہوتے ہیں تبصرے ہوتے ہیں الزمات کی بارشیں ہوتی ہیں کمیشن بیٹھتے ہیں، کمیٹیاں بنتی ہیں اور کمیشنوں اور کمیٹیوں کی رپوٹوں اگر مرضی کے مطابق ہو تو شائع کردیا جاتا ہے ورنہ دبا دیا جاتا ہے اور معاملہ ختم سامنے لوگ قربانی کے بکرے بن جاتے ہیں اور پسِ پردہ ڈوریاں ہلانے والے لوگ دُنیا کا مذاق اُڑاتے ہوئے کی نئی مہم اور کسی نئے معرکے کی تلاش میں کسی نئے قربانی کے بکرے کو تلاش کرتے ہیں۔ سب کا کروبار اسی طرح چلتا رہتا ہے اور ہم ترقی --
کی منزل سر کرتے ہیں۔ ترقی زندہ باد ترقی زندہ باد
اس سکینڈل کا سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اس میں تعلیم کے ساتھ کھیل کھیلا گیا اور ان لوگوں کو جعلی ڈگریوں سے پیسہ لے کر نوازا گیا جو اہل نہیں تھے اور اُن لوگوں نے پیسے کے بل بوتے پر یہ ڈگریاں حاصل کی اور پھر اپنی سفارش اور کمیشن کی بنیاد پر اعلیٰ عہدوں کو نوکریاں حاصل کیں کیا آ پ تصور کرسکتے ہیں کہ جن لوگوں نے جعلی ڈگریوں اور سفارش کے بل بوتے پر یہ نوکریاں حاصل کی ہونگی کیا  وہ اپنی نوکریوں سے انصاف کر سکیں گے کیونکہ انہوں نے غلط راستے اور جعلی ڈگری کے ذریعے نوکری حاصل کی ہوگی تو اس بآت کا قوی امکان ہے کہ وہ مستقبل میں غلط راستہ ہی اپنائیں گے اور اس طرح دنیا کے اس دیمک زدہ معاشرے کو گُھن کی طرح چاٹ جائیں گے اور وہ لوگ جو اپنی محنت اور قابلیت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتے ہیں کیا اُن کی حق تلفی نہٰیں ہوگی کیا اُن کے دل و دماغ میں یہ جنگ شروع نہیں ہوجائے گی کہ محنت کا کیا فائدہ جب شارٹ کٹ ہی فائدے کا راستہ ہے تو کیوں نہ شارٹ کٹ ہی اپنایا جائے اور کیا یہ دنیا آہستہ آہستہ اِس قسم کے سلو پوائزن سے جہنم کا  شکار نہیں ہوجائے گی لیکن یہ کون سوچتا ہے ہمیں تو ترقی کرنی ہے، بنگلہ چاہیئے، کار چاہیئے، بنک بیلنس چاہیئے اور پہلو میں حور چاہیئے اس کے لئے ہمیں چاہے کتنا ہی غلط کام کیوں نہ کرنا پڑے اس کے لئے ہم تیار ہوجاتے ہیں اور معاشرے کے وہ نیک لوگ جو آٹے میں نمک کے برابر ہیں اپنے وجود سے لڑتے لڑتے تھکتے چلے جارے ہیں لیکن افسوس صد افسوس نقار خانے میں طوطی کی آواز
کوئی نہیں سنتا کیونکہ اس کی آواز دب جاتی ہے یا دبا دی جاتی ہے۔
سچ   سے   ہم    گھبراتے    ہیں
جھوٹ کے پیچھے ہم جاتے  ہیں
کس   منزل  کو   ہم  جاتے   ہیں
کونسا   رستہ    ہم    اپناتے   ہیں
افسوس! کس کو اپنا دکھڑا روئیں
اس حمام  میں  تو  سب ننگے ہیں
ہمارے    بند   ذہنوں   کو  یاروں

دیمک   چاٹ    گئی    ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم سچائی کا سامنا کرتے ہوئے گھبراتے ہیں اور جب سچ ہمارے سامنے کسی بند بوتل کے جن کی طرح کُھل کر سامنے آجاتا ہے تو ہم اس سچائی سے راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم دوسروں پو انگلیاں اُٹھاتے نہیں تھکتے لیکن اپنے گریبان میں ایک لمحے کے لئے بھی جھانکنے کی کوشش نہیں کرتے کہ کیا ہم خود بھی اس قسم کے کاموں میں شامل نہیں ہوجاتے کیا ہم خود جھوٹ نہیں بولتے، رشوت نہیں لیتے اور دیتے، بھتہ خوری نہیں کرتے، ٹارگٹ کلنگ نہیں کرتے،سکولوں میں نقل کرکے پاس نہیں ہوتے، الیکشن میں ووٹ ڈالتے وقت دھاندلی نہیں کرتے، رمضان میں چیزیں منہگے داموں فروخت نہیں کرتے، بجلی ، گیس یا ٹیلی فون کا کنکشن لگوانے کے لئے کمیشن نہیں دیتے، کرکٹ میں سٹہ نہیں کھیلتے، مساجد اور امام بارگاہوں سے جوتے چوری نہیں کرتے، مساجد اور امام بارگایوں کے چندے نہیں کھا جاتے۔ کسی کی بہن، بہو اور بیٹی پر الزام لگاتے ہوئے نہیں ڈرتے، جہیز کا تقاضا نہیں کرتے، امیر کو سلام نہیں کرتے اور غریب کو دھکے نہیں دیتے انتہائی معذرت کے ساتھ یہ سب ہمارے معاشرے کی کڑوی ترین سچائی ہے جیسے ہم ہیں ویسی ہی ہمیں حکومت بھی ملتی ہے۔ ہر شخص اپنے اندر رات کی تنہائی میں اپنے اللہ کو یاد کرتے ہوئے چند لمحے کے لئے سوچے کہ وہ اندرسے کیا ہے تو اسے احساس ہوگا کہ اِس دُنیا کے حمام میں سب ننگے ہیں بڑا آدمی بڑا ہاتھ مار رہا ہے اور چھوٹا آدمی چھوٹا ہاتھ مار رہا ہے بس ہاتھ پڑنے کی دیر ہیں لکڑ ہضم پتھر ہضم سب کچھ ہضم کیونکہ ہمارے بند ذہنوں کو دیمک چاٹ گئی ہے خرابی نظام میں نہیں ہوتی خرابی ہم سب میں خود ہے جب تک ہم خود کو صحیح نہیں کریں گے ہم سب خون کے آنسو روتے رہیں گے اور ٹی ٹاک شوز میں افسوس سے سر ہلا کر تبصرے کرتے رہیں گے کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے یاد رکھو برائی کا انجام ہمیشہ برا ہوتا ہے اس دنیا میں بھی بدلہ ملتا ہے اور آخرت میں بھی لیکن افسوس انسان اسے نہیں سمجھتا کیونکہ وہ خسارے میں ہے۔ اگر اب بھی ہم نہ سمجھے تو یاد رکھو اللہ کی تلوار نازل ہوگی اور سب کا صفایا کرے گی اس لئے بہتر ہے اس سے پہلے کہ وہ نازل ہو اپنے اعمال کو صحیح کولوورنہ تمہارے پاس وقت نہیں ہوگا۔







سید محمد تحسین عابدی





No comments:

Post a Comment