Sunday 31 May 2015

خٰیبر پختونخواہ کے خونی بلدیاتی الیکشن

خٰیبر پختونخواہ کے 

خونی بلدیاتی الیکشن

خیبر پختونخواہ میں سپریم کورٹ کے آڈر پر خدا خدا کرکے بلدیاتی الیکشن ہوگئے لیکن یہ الیکشن جو کہ بہت ہی پرامن ہونے کی توقع تھی۔  خیبر پختونخواہ میں پولیس کے نظام میں تبدیلی کے بعد یہ امید تھی کہ خیبر پختونخواہ کی حکومت اور انتظامیہ ان الیکشن کو پُرامن کرانے میں کامیاب ہوگی اور پُرامن الیکشن کے انعقاد کا کریڈیٹ لے گی لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت کی ساری امیدوں پر پانی اُس وقت پھر گیا جب اِن الیکشن کو کچھ عناصر کی طرف سے متنازعہ بنانے کے لئے ایک الگ پلان ترتیب دیا گیا اور الیکشن کو ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مختلف علاقوں میں ھنگامہ آرائی توڑ پھوڑ اور جلائو گھیرائو کرکے کے متنازعہ بنا دیا گیا اور یہ عناصر اپنی اس کوشش میں مکمل طور پر کامیاب نظر آئے کیونکہ خیبر پختونخواہ کے اس بلدیاتی الیکشن میں عوام میں برداشت کی قوت میں کمی کا بھرپور فائدہ اُٹھایا گیا اور مختلف علاقوں میں ذرا سی بھی ہونے والی بات پر لوگوں کے جذبات کو ابھارا گیا اور جس کی وجہ سے خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں بات گالم گلوچ سے شروع کی گئی اور پھر ہاتھا پائی کی نوبت سے ہوتی ہوئی ڈنڈوں پر پہنچی اور پھر ڈنڈوں سے بات بڑھ کر فائرنگ پر آگئی اور پورے  میڈیا پر ھنگاموں کی سارا دن مختلف خبریں نشر ہوتی رہیں۔ میڈیا کی کیمرہ کی آنکھ نے جو کچھ دیکھا وہ ہی دکھایا لیکن پردہ سکرین کے پیچھے ہونے والی کارروائیاں اتنے منظم انداز میں کی جارہی تھیں کہ عام انسان کی سوچ شاید اس تک نہیں پہنچ سکتی کیونکہ جیسے ہی ہنگامہ آرائی شروع ہوئی ویسے ہی دھاندلی کا شور بھی مچنا شروع ہوگیا اور کیونکہ وہ عناصر جن کو اپنی ہار نظر آرہی تھی اُن کا پلان ہی یہی تھا کہ الیکشن کسی بھی طور پر پرُ امن نہ ہوں اگر الیکشن کا پُر امن انعقاد ہوجاتا تو پھر ہارنے والوں کے پاس کوئی جواز نہ رہ جاتا کہ اُن کو شکست ہوئی ہے اُن کی کامیابی کا سارا 
دارومدار اسی بات پر تھا کہ ہنگامہ ہو اور پولنگ کا عمل رک جائے اور اس کا زیادہ سے زیادہ فائدہ حآصل ہوسکے ۔ 
 ہنگاموں کی وجہ سے مختلف پولنگ سٹیشنوں پر  پولنگ کا عمل رک گیا پولنگ کے عمل کے رکنے کی وجہ سے جن لوگوں کو اس کا فائدہ ہوا اُس کو بھی مد نظر رکھنا ضروری ہے۔  ان ہنگاموں کی وجہ سے اور فائرنگ کے واقعات میں دس کے قریب قیمتی جانوں کا نقصان ہوا اور سو سے زائد افراد زخمی ہو کر ہسپتال پہنچ گئے۔ خیبر پختونخواہ کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے الیکشن میں ہونے والی بے ضابطگیوں کی ذمہ داری االیکشن کمیشن پرڈال دی اگر دیکھا جائے تو الیکشن کرانے کی ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے لیکن امن و امان قائم کرنے کی ذمہ داری صوبائی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو یہ احساس ہونا چاہیئے تھا کہ الیکشن کو ناکام کرنے کی پوری کوشش کی جائے گی تاکہ ذمہ داری خیبر پختونخواہ کی ڈال دی جائے گی اور انجام کار ایسا ہی ہوا خیبر پختونخواہ کی حکومت کو چاہیئے تھا کہ الیکشن سے پہلے الیکشن میں حصہ لینے تمام جماعتوں کی ایک میتنگ بلاتی اور الیکشن کا لائحہ عمل طے کیا جاتا تاکہ اگر کسی طرف سے ہنگامہ آرائی کی کوشش ہوتی تو حکومت کو پہلے سے طے شدہ لائحہ عمل کی وجہ سے حالات کو کنٹرول کرنا آسان ہوتا لیکن خیبر پختونخواہ کی حکومت نے یا تو انتہائی سادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے آنے والے خطرات کی بو نہیں سونگھی جو کہ سر پر منڈلا رہا تھا کیونکہ اچھی حکومت وہی ہوتی ہے جو ریت کے نیچے دبے ہوئے خطرات کو بھانپ کر پہلے سے اقدامات کرے اور اُن کا توڑ کرے لیکن شاید خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اپنے اوپر حد سے زیادہ اعتماد تھا جس کی وجہ انہوں نے تمام پارٹیوں کا اجلاس بلا کر الیکشن کا لائحہ عمل طے نہیں کیا جس کی وجہ سے جب الیکشن کے دن ہنگاموں کا جن بوتل سے باہرآیا تو خیبر پختون خواہ کی حکومت حالات کو کنٹرول نہ کرسکی۔  ادھر دوسری طرف الیکشن کمیشن بھی سات رنگ کے بیلٹ پیپر بنا کر ووٹ کاسٹ کرنے کا ایسا پیچیدہ نظام بنایا جس کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا خیبر پختونخواہ میں لوگ اتنے زیادہ پڑھے لکھے نہیں ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن کے ووٹ کاسٹ کرنے کے نظام کو مکمل طور پر سمجھ نہیں سکے اور ووٹرز کو اپنا ووٹ کاسٹ کرنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکشن کمیشن کوئی بہتر طریقہ اپناتی جس سے ووٹر کو ووٹ کاسٹ کرنے میں آسانی ہوتی لیکن ایسا نہ ہوسکا
الیکشن میں ووٹنگ کے آغاز کے ساتھ ہی دھاندلی کا شور اُٹھنا شروع ہوا انتہائی معذرت کے ساتھ اس الیکشن میں یہ نظر آیا کہ دودھ کا دھلا کوئی نہیں ہے اس حمام میں سب ہی ننگے ہیں جس کا جہاں زور چلا اس نے دل کھول کر دھاندلی کی اور ایک طرف دھاندلی کی دوسری طرف ٹی وی چینلز پر آکر ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کی افسوس ہوتا ہے کہ ہمارے اپنے اندر ایمانداری کی ہلکی سی بھی رمق نظر نہیں آتی ہے ہر کوئی ایک ہی رنگ میں رنگا نظر آتا ہے ایک طرف ہم خود جہاں جس کسی کا بس چلتا ہے دھاندلی کرتے ہیں اور پھر سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ پھر جھوٹ پر جھوٹ بولتے ہیں ایک دوسرے کی مخالف پارٹیاں ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرتی ہیں لیکن خود یہ نہیں سوچتیں کہ جب ان کا موقع ہوتا ہے تو دھاندلی کا یہ گندہ کام خود بھی دھڑلے سے سرانجام دے رہی ہوتیں ہیں اور اس طرح دھاندلی کا یہ سائیکل چلتا رہتا ہے اور پھر نئے الیکشن کی تیاری اور پھر نئی دھاندلی کی پلاننگ، ہنگاموں کی منصوبہ بندی کوئی یہ نہیں سوچتا کسی کا لخت جگر ان ہنگاموں کی نظر ہوگیا اس کے گھر والوں پر کیا گزر رہی ہوگی، کوئی ہمیشہ کے لئے ہنگاموں کی وجہ سے اپاہج ہوکربیٹھ جاتا ہے کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں ہر طرف نفسانفسی کا دور دورہ نظر آتا ہے۔ ہر سچائی دفن، ہر اصول دفن، ہر طرف جھوٹ کا دور دورہ سچ کو تلاش کرنا نہ صرف انتہائی مشکل بلکہ سب کچھ ناممکن نظرآتا ہے  
ادھر ایک اور افسوسناک واقع اور ہوا کے اے این پی کے سیکٹری جنرل میاں افتخار کو پی ٹی آئی کے کارکن کے قتل میں گرفتار کرلیا گیا جس کی وجہ سے حالات اور زیادہ خراب ہوگئے ہیں اور تلخیاں کم ہونے کم ہونے کی بجائے اور زیادہ ہونگی اس لئے خیبر پختونخواہ کی حکومت کو اس مسئلے کو انتہائی تدبر کے ساتھ حل کرنا چاہیئے  ورنہ یہ مسئلہ خیبر پختونخواہ حکومت کے گلے بھی پڑ سکتا ہے


خیبر پختونخواہ میں الیکشن تو ہو گئے امیدوار جیت بھی گئے اور ہار بھی گئے لیکن اپنے پیچھے بہت سی تلخ یادیں چھوڑ گئے کاش ہم سب رات کی تنہائی میں اپنے اللہ کے سامنے حاضر ہوں اور اپنا تجزیہ کریں کہ ہم سب کیا ہیں، کیا کر رہے ہیں، کدھر جارہے ہیں، ہماری زندگی کا کیا مقصد ہے کیا ہم سب صحیح راستے کی طرف جارہے ہیں یا ہم سب گناہ کو ثواب سمجھ کر کررہے ہیں اور پھر اس پر فخر کرتے ہیں کس لئے کیا اپنی ساٹھ، ستر یا اسی سال کی زندگی کو بہتر بنانے کے لئے یہ سب کچھ کررہے ہیں جو کہ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود پھر بھی بہتر نہیں ہوتی آخر کیا یہ سب کچھ اپنے ساتھ لے جائیں گے نہیں انتہائی معذرت کے ساتھ ہم جیسے خالی ہاتھ آئے تھے ویسے ہی خالی ہاتھ واپس چلیں جائیں گے لیکن ہاں ہم نے جو یہاں بویا ہے وہ وہاں ضرور کاٹیں گے پلیز ذرا سوچیں اور خود کو تبدیل کریں تبدیلی نظام تبدیل کرنے سے نہیں تبدیلی خود کو تبدیل کرنے سے آئے گی۔ جب تک ہم خود اندر سے ایماندار نہیں ہوتے تبدیلی محض ایک خواب ہی ہوگی۔ 




                                                          سید محمد تحسین عابدی


No comments:

Post a Comment