Thursday 25 June 2015

پاکستان این آر او




 پاکستان میں ایک اور این آر او کی باز گشت
















پاکستان میں خصوصاً کراچی اور سندھ میں ہر پل بدلتی ہوئی صورتحال میں بے شمار افواہیں جنم لے رہی ہیں ایک طرف آصف علی زرداری کے بیان نے ملک میں ایک تہلکہ مچادیا تو دوسری طرف ماہ رمضان کے ساتھ لوڈ شیڈنگ اور شدید گرمی نے پورے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اور کراچی اور سندھ میں شدید گرمی کی وجہ سے ایک ہزار افراد ناکردہ گناہوں کی پاداش میں موت کی وادی میں اُتر گئے اور اچانک پیپلز پارٹی کی قیادت جن میں آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری اور فریال تالپور کراچی اور سندھ کے عوام کو مصیبت اور مشکل میں تنہا چھوڑ کر دبئی چلے گئے۔ ابھی اُن کی روانگی پر سوالات اُٹھ رہے تھے کی ایم کیو ایم کے بھارت سے رقم وصول کرنے اور بھارت میں ایم کیو ایم کے کارکنوں تربیت حاصل کرے کی بی بی سی کی رپورٹ منظر عام پر آگئی جس کو ایم کیو ایم نے یکسر مسترد کردیا لیکن بی بی سی اپنی رپوٹ پر قائم  ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اس کی رپورٹ سچائی پر مبنیٰ ہے۔ اس رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے بعد الزمات کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا ہے جس نے اس شدید گرمی میں سیاسی درجہ حرارت کو انتہائی بلند کردیا ہے ایک طرف عوام ہیں جن کا مطالبہ ہے کہ ریاست پاکستان  بلاتفریق احتساب کا صاف اور شفاف عمل شروع کرے اور جو کوئی بھی اس کی زد میں آئے اُس کے خلاف قانون حرکت میں آئےخواہ اُس میں سیاستدان ہوں، عدلیہ کے افراد ہوں۔ فوج سے تعلق رکھنے والے افراد ہوں یا بیوروکریٹز ہوں سب کا احتساب کرکے ایک بار ملک کو صاف کیا جائے۔
آپریشن ضربِ عضب کی کامیابی کے بعد عوام کی توقعات فوج سے بہت زیادہ بڑھ گئیں تھیں اور کراچی میں بھی تمام جماعتوں کے اتفاق رائے سے رینجرز کو کراچی میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف ٹاسک دیا گیا تھا اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ کراچی میں عرصہ دراز سے دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ بھتہ خوری اور جرائم پیشہ عناصر کا راج تھا اور دوسری بڑی وجہ یہ تھی کہ آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے دہشت گرد راہ فرار اختیار کرکے کراچی کا رخ کر رہے تھے اور خطرہ تھا کہ اگر کراچی میں اِن دہشت گردوں نے پناہ حاصل کرلی تو اور اُن کے خلاف موثر کارروائی نہ کی گئی تو پھر صورتحال کو کنٹرول کرنا کسی کے بس میں نہ ہوگا اِس ساری صورتحال کے پیش نظر رینجرز نے انتہائی تندہی سے آپریشن کا آغاز کیا
اور انہوں نے دہشت گردوں، ٹارگٹ کلرز، بھتہ خوروں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف بھرپور کارروائی کا آغاز کیا اور اس سلسلے میں بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا لیکن مسئلہ یہ ہوا کہ جب اِن جرائم پیشہ عناصر کو گرفتار کیا گیا اور اُن سے تفتیش کا آغاز کیا گیا تو معلوم ہوا کہ جن افراد کو گرفتار کیا گیا ہے اُن کا تعلق کسی نہ کسی سیاسی جماعت سے ہے یہ ایک تلخ اور کڑوی سچائی ہے کہ کراچی میں سیاسی جماعتوں نے اپنی جماعتوں کو کنٹرول کرنے اور مخالفوں کا مقابلہ کرنے کے لئے اپنے اپنے عسکری وننگز قائم کر رکھے تھے اور یہ عسکری وننگز اِن جماعتوں کے کنٹرول سے بالکل باہر ہوگئے تھے ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ ان سیاسی جماعتوں کے پاس بہترین موقع تھا کہ وہ رینجرز کی مدد سے اپنے ان عسکری وننگز سے نجات کرسکتی تھیں لیکن مسئلہ یہ تھا کہ جرائم پیشہ عناصر کے قدموں کے نشان اِن جماعتوں کی انتہائی طاقت ور شخصیات کی طرف جاتے تھے جس کی وجہ سے یہ جماعتیں جرائم پیشہ عناصر کے خلاف واویلا تو مچاتی رہیں لیکن کیونکہ جرائم پیشہ عناصر تفتیش میں ان جماعتوں کی طاقت ور شخصیات کا نام سامنے لارہے تھے تو ان جماعتوں کی ان طاقت ور شخصیات کو خوف پیدا ہوا کہ ان جرائم پیشہ عناصر کی وجہ سے ان کی گردن میں بھی پھندا پڑ سکتا ہے تو ان شخصیات کو اس آپریشن میں کیڑے نظر آنے لگے جسے انہوں خود ہی شروع کرایا تھا۔ اگرچہ ریاستی اداروں نے کئی بار اپیل کی کہ اپنا قبلہ درست کرلیں لیکن قبلہ درست کرنا تو دور کی بات ریاستی اداروں کو دھمکیوں سے نوازا جانے لگا اور یہاں تک کہا گیا کہ ملک بند کردیا جائے گا لیکن ریاستی اداروں نے بھی عہد کیا ہوا تھا کہ اب مجروں پر ہر صورت میں ہاتھ ڈالا جائے گا اور وہ تندہی سے اپنا کام کررہے ہیں اب یہ طاقت ور شخصیات اس کوشش میں مصروف ہیں کہ کسی طرح ایک اور این آر او ہوجائے اور ان کی کسی طریقے سے جان بخشی ہوجائے یہ سب شخصیات پردہ سکرین کے پیچھے ایک طرف تو اس کوشش میں مصروف ہیںکہ  آپس میں اندرون خانے ایک بہت بڑا اتحاد قائم کرلیا جائے تاکہ ریاستی ادارے ان کے خلاف کاورائی نہ کرسکیں کیونکہ یہ طاقت ورشخصیات ماضی میں بھی ایک دوسرے کی انشورنس پالیسی کا کردار ادا کرتی رہی ہیں اور ایک دوسرے کے جرائم کو تحفظ فراہم کرتی رہی ہیں اس لئے ایک دوسرے کے گناہوں پر پردہ ڈالنے کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہیں کیونکہ جب یہ دوسرے کا پیٹ ننگا کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو ان کا اپنا پیٹ بھی ننگا ہوتا ہے اور جب یہ حال ہو کہ حمام میں سب ننگے ہوں تو پھر شرم ہی ختم ہوجاتی ہے ان شخصیات کی بھرپور کوشش ہے کہ ان عناصر کو تو ضرور الٹا لٹکا دیا جائے جو تفتیش میں ان کا نام لے رہے ہیں لیکن ان کے ساتھ کوئی ڈیل اور مک مکا کرلیا جائے کچھ حلقوں کا یہ بھی خیال ہے کہ ان طاقت ور شخصیات سے وہ رقم حاصل کرلی جائے جو انہوں نے لوٹی ہے اور ان کو رعایت دے دی جائے۔ کچھ عناصر یہ دور کی کوڑی لا رہے ہیں کہ ان عناصر سے یہ ڈیل کی جائے کہ یہ طاقت ور شخصیات سیاست سے ہمیشہ کے لئے کنارہ کشی کرلیں تاکہ پاکستان میں نئی قیادت ابھر کر سامنے آئے غرض جتنے منہ اتنی باتیں سامنے آرہی ہیں بہت سے لوگ یہ رائے دے رہے ہیں کہ سب کو ٹانگ دینا چاہیئے تاکہ ملک سے صفائی ہوجائے لیکن افسوس جہاں سے میں دیکھ رہا ہوں یہ سب باتیں مسائل کا بالکل حل نہیں کیونکہ انتہائی معذرت اور افسوس کے ساتھ میں یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ ہمارا پورا معاشرہ دیمک زدہ ہے آپ سب لوگ اپنے دل پر ہاتھ رکھیں اور بتائیں کیا اس ملک میں کوئی کام رشوت اور سفارش کے بغیر ہوسکتا ہے افسوس جس معاشرے میں پاب بیٹے کو یہ کہے کہ دروازے پر جو ملنےآیا ہے اسے کہو ابو گھر پر نہیں ہیں یا اولاد جس کا باپ رشوت نہ لیتا ہو اپنے باپ کے بارے میں یہ کہے کہ ہمارا باپ پاگل ہوگیا ہے رشوت اور کمیشن نہیں لیتا یا استاد خود اپنے شاگردوں کو نقل کروائے، یا وکیل مجرموں کو رہا کروائے اور کہے میرا تو پیشہ ہی یہ ہے یا ڈاکٹر کند چھری سے مریض کو ذبح کرے اور اس کے دل میں کوئی مسیحائی نہ ہو، بجلی کا میڑ لگوانا ہو تو کمیشن، گیس کا کنکشن لگوانا ہو تو کمیشن پینشن کے کاغذات مکمل کروانے ہوں کمیشن، نوکری چاہیئے تو سفارش یا کمیشن ابھی دور کیوں جائیے کراچی میں ایک ہزار کے قریب لوگ مر گئے قبریں 2500 ہزار سے ایک لاکھ میں ملیں لوگوں اور میتوں کو پہنچانے کے منہ مانگے دام وصول کئے گئے  کس کے دل میں درد جاگا ایک دوسرے پر الزامات کی بارش جھوٹ، دھوکہ یہ سب ہمارے ایمان کا حصہ بن گئے ہیں افسوس یہاں بڑا آدمی بڑا ہاتھ مار رہا ہے اور چھوٹا آدمی چھوٹا ہاتھ مار رہا ہے ۔ نیکی انتہائی کم اور گناہ بہت زیادہ ہیں۔ جو معاشرہ گناہ ثواب سمجھ کر کرے پھر اُس معاشرے میں عذاب مختلف شکلوں میں آتے ہیں اور اس وقت یہی ہو رہا ہے ہمارے ساتھ کبھی عذاب زلزلے کی شکل میں آتا ہے۔ کبھی عذاب تھر میں قحط کی صورت میں آتا ہے، کبھی عذاب لوڈشیڈنگ کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی عذاب حکمرانوں کی شکل میں ہوتا ہے ہم خود برے ہیں تو ہمیں حکمران بھی ویسے ہی ملتے ہیں۔ افسوس ہم خود اپنے حکمران چنتے ہیں اللہ کئ چنے ہوئے منتخب اور نیک لوگوں کو چھوڑ دیتے ہیں اُن کا مذاق اُڑاتے ہیں کیونکہ وہ آٹے میں نمک کے برابر ہوتے ہیں تاکہ ذائقہ صحیح ہو یاد رکھو اگر آٹے میں نمک کے برابر یہ نیک لوگ ختم ہوگئے تو پھر یہ دنیا بھی ختم ہوجائے گی جب تک خود کو ٹھیک نہیں کرو گے کچھ نہیں ہوگا کیونکہ ہم نے خود اپنے برے اعمال سے اپنا جینا بھی مشکل کردیا ہے اور مرنا بھی کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے



سید محمد تحسین عابدی

No comments:

Post a Comment