Tuesday 23 June 2015

کراچی، قاتل گرمی اور موت کے سائے


 کراچی، قاتل گرمی، لوڈشیڈنگ کا عذاب اور موت کے سائے

کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر ہوا کرتا تھا یہاں ہر قوم، رنگ، نسل اور فرقہ کے لوگ اپنا رزق حاصل کرتے تھے اور چین کی نیند سوتے تھے لیکن نہ جانے پاکستان کے اس معاشی حب کو کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں ہر وقت موت کے سائے منڈلاتے رہتے ہیں ابھی کراچی میں دہشت گردی، مذہبی دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، معاشی دہشت گردی، بھتہ خوری اور لینڈ مافیا کے خلاف رینجرز کا کامیاب آپریشن جاری تھا اور کراچی کے عوام کو کچھ سکھ کا سانس نصیب ہوا تھا کہ کراچی میں جان بوجھ کر پانی کا بحران پیدا کردیا گیا اور کراچی کے عوام پانی کی بوند بوند کو ترس گئے
ابھی کراچی میں پانی کا بحران جاری تھا اور کراچی کے لوگ پانی کی د ہائی دے رہے تھے کی رمضان کا مقدس مہینے کا آغاز ہوگیا اور لوگوں نے پہلا روزہ رکھا لیکن کراچی کے لوگوں کو صوبائی حکومت کی نااہلی اور کے الیکٹرک کرکرتا دھرتائوں نے ایک ایسے عذاب میں مبتلا کردیا جسے کراچی کے عوام شاید ہی کبھی بھلا سکیں گے۔ ادھر لوگوں نے جوش و جذبہ سے شدید گرمی اور غیر اعلانیہ لوڈ شیدنگ میں روزہ رکھا اور فجر کی نماز ادا کی اور صبح ہوئی اور آگ برساتا ہوا سورج طلوع ہوا اور کراچی کا درجہ حرارت تیزی سے بڑھانا شروع ہوا ادھر کراچی کے اکثر علاقوں سے بجلی غائب ہوگئی عوام سڑکوں پر احتجاج کرتے رہے لیکن نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے سارا دن وفاقی حکومت کے وزیر پانی وبجلی خواجہ آصف اور وزیر مملکت عابد شیر علی، سندھ حکومت اور کے الیکڑک ایک دوسرے پر الزامات کی بارش کرکے اپنی ذمہ داریوں کو نبھاتے رہے کسی نے بھی اس بات پر توجہ نہیں دی کہ لوڈ شیڈنگ کو کیسے ختم کیا جائے حالانکہ سب کو علم تھا کی رمضان کی آمد ہے اور قہر برساتی گرمی پڑرہی ہے اور ظاہر ہے کہ بجلی کی طلب میں اضافہ ہوگا اُس کا پہلے سے انتظام ہونا چاہیئے تھا لیکن افسوس رمضان کی آمد سے پہلے بڑے بڑے دعوے کئے گئے کہ سحر اور افطار میں بجلی کی بالکل لوڈشیڈنگ نہیں ہوگی لیکن وفاقی حکومت اور کے الیکڑک کے تمام وعدوں کی قلعی اس وقت کھل کر سامنے آگئی جب ملک کے ہر حصے میں اکثر علاقوں میں سحر اور افطار کے وقت بجلی 
غائب ہوگئی اور لوگ سڑکوں احتجاج کرتے نظر آئے
لیکن کراچی کی صورتحال انتہائی خراب نظر آئی اور لوگ روزے میں شدید گرمی کی وجہ سے ڈی ہائیڈریشن  ، ہیٹ سڑوک اور گیسٹرو جیسے مہلک امراض کا شکار ہوکر موت کی وادی میں اترنے لگے پہلے ہی دن سو سے زیادہ افراد موت کی آغوش میں پہنچ گئے لیکن کسی کے کان پرجوں نہ رینگی صرف وہی ادارہ اس موقع پر کام آیا جس پر عوام کو اعتماد ہے اور وہ خواہ زلزلہ ہو، سیلاب ہو، دہشت گردی کو روکنا ہو، بارشوں سے کوئی مصیبت نازل ہو ہر وقت اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرکے عوام کو مصیبتوں سے نکالتا ہے اور پھر موقع پرست لوگوں کی کڑوی اور کسیلی باتیں بھی برداشت کرتا ہے یعنی ہماری فوج اور رینجرز انہوں نے فوری طور پر کیمپ قائم کئے تاکہ صورتحال زیادہ خراب نہ ہو اور اگر رینجرز کیمپ قائم نہ کرتی تو معلوم نہیں کراچی میں ہزاروں لوگ گرمی کی شدت کو برداشت نہ کرتے ہوئے موت کی آغوش میں سو جاتے 
فوج اور رینجرز کی بروقت کاروائی کی وجہ سے لوگوں کو کچھ سہارا ہوا جبکہ سندھ حکومت ستو پی کر سوئی ہوئی نظر آئی اور کراچی میں گرمی آگ برساتی رہی اور لوگ گرمی شدت برداشت نہ کرتے ہوئے ناکردہ گناہوں کی پاداش میں موت کی نیند میں سوتے رہے اور مرنے والوں کی تعداد  میں اضافہ ہوتا رہا کہ ایدھی میں بھی میتوں کو رکھنے کی جگہ باقی نہ رہی اور لوگ اپنے پیاروں کو اپنی نظروں کے سامنے اپنے سے بہت دور جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا جاتے دیکھتے رہے لیکن وہ کچھ نہیں کر سکتے تھےگزشتہ چار 
دنوں میں سرکاری طور پر سات سو بائیس افراد موت کی آغوش  میں چلے گئے لیکن غیر سرکاری تعداد اس سے کہیں زیادہ نظر آتی ہے اور اندرون سندھ سے بھی اموات کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں اور اس طرح پورے سندھ میں مرنے والوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ سکتی ہے کراچی سسکتا رہا اور عوام بلکتے رہے لیکن افسوس موقع پرست لوگوں نے مریضوں اور میتوں کو لانے اور لے جانے 2000 ہزار سے 2500 ہزار روپے اور منہ مانگے دام وصول کئے ادھر قبروں کے ریٹ 25000 ہزار سے 50000 ہزار وصول کئے گئے افسوس ہوتا ہے کہ ایسے موقع پر لوگ تو مدد کو آگے آتے ہیں لیکن ہمارا کیا کردار ہے ہم لٹیرے کیوں بن جاتے ہیں کیا ہمارا دین ایمان صرف پیسہ اور پیسہ رہ گیا ہے ہم کیوں یہ نہیں سوچتے کہ ایک روز ہمیں بھی جان دینی ہے کب تک بڑے آدمی بڑے ہاتھ مارتے رہیں گے اور چھوٹے لوگ چھوٹے ہاتھ مارتے رہیں گے ہم اپنے کردار کو کیوں نہیں بہتر بناتے جب ہم ایسے غلط کام کرتے ہیں تو ہم پر اللہ کا عذاب مختلف صورتوں میں نازل ہوتا ہے لیکن کاش ہم سوچیں اور سمجھیں اور خود کو تبدیل کریں اور اپنے کرادار کو اعلیٰ بنائیں ورنہ ایسا نہ ہو کہ ہم کسی بہت بڑے عذاب میں مبتلا ہوجائیں خدارا خود کو تبدیل کرو اور خود سوچو ہم کیوں گناہوں کی دلدل میں اترتے چلے جارہے ہیں ہم سب کہتے ہیں صفائی ہونی چاہیئے لیکن سب سے پہلے ہر آدمی سوچے وہ خود کیا ہے اور کیا کررہاہے
سندھ حکومت کو بھی خیال آگیا کہ کراچی والوں کے آنسو پونچھنے کے لئے کچھ کرنا ہے اس لئے شرجیل میمن نے صوبہ سندھ میں عام تعطیل کا اعلان کیا اور وزرا کے ساتھ وفاقی حکومت اور کے الیکٹرک کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا لیکن دوسری طرف فریال تالپور کراچی کے عوام کو زندگی اور موت کے کشکمش میں تنہا چھوڑ کر دبئی روانہ اگر دل میں درد ہوتا تو وہ کبھی بھی دبئی نہ جاتی کیوں کہ جو لیڈر ہوتے ہیں وہ کبھی بھی اورکسی مشکل میں عوام کو تنہا نہیں چھوڑتے لیکن ہمارے لیڈران کو جب عوام مصیبت میں ہوتے ہیں اپنے اہم کام یاد آجاتے ہیں افسوس  صد افسوس کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے





سید محمد تحسین عابدی




No comments:

Post a Comment