Wednesday 3 June 2015

ایم کیو ایم کے کارکن کی تھانے میں قتل

ایم کیو ایم کے کارکن
وسیم دہلوی کی تھانے میں 
 قتل

تھانیدارمعطل، سب انسپکٹر سمیت تین پولیس اہلکار گرفتار، ایم کیو ایم کا دوروزہ سوگ کا اعلان


کراچی شہرایم کیو ایم کے کارکن وسیم دہلوی کی تھانے میں ماروائے عدالت ہلاکت کے بعد ایک بارپھرسوگ، خوف اوردہشت کی فضا میں ڈوب گیا پورے پاکستان میں اس قسم کے واقعات ہمیشہ ہوتے ہیں کیونکہ سب سے افسوسناک بات یہ کہ ہماری پولیس جس میں میرٹ کی بجائے ہمیشہ سیاسی بنیادوں پر بھرتیاں ہوتی ہیں وہاں انسان کو کیڑا مکوڑا ہی سمجھ  کر مار دینا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ 
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جہاں صرف جنگل کا قانون نظر آتا ہے جس کے پاس ذرا سی بھی طاقت ہوتی ہے یا اُس کے پیچھے کوئی طاقت ور ہاتھ ہوتا ہے وہ خود کو خدا سمجھ بیٹھتا ہے اور طاقت کے نشے میں خود کو ہر قاعدہ اور قانون سے بالا تر سمجھتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جس کو دیکھ کر اور سُن کر انسان ہونے پر بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے اور یہ سوچنے پر انسان ہی مجبور ہوجاتا ہے کیا کسی انسان نے ہی کسی انسان کو بدترین تشدد کرکے اُس کو اس کی قیمتی جان سے محروم کردیا۔ اور سب سے  افسوس اور دُکھ کی با ت یہ ہے کہ قانون کے محافظ ہی قانون کی دھجیاں بکھرتے ہوئے درندے بن جاتے ہیں اور جب قانون ہی قانون کا مذاق اُڑاتا نظر آئے تو پھر اِس قسم کے قانون کو جنگل کا قانون ہی کہا جائے گا 
یہ ایک وسیم دہلوی کی بات نہیں ہے اِس کراچی میں ہی نہیں پورے پاکستان میں معلوم نہیں آئے روز کوئی نہ کوئی اپنی ماں کا لال پولیس تشدد یا کسی جعلی پولیس مقابلے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور حکومت اور اس کے وزراء پولیس کی اس دہشت گردی کو افسوسناک واقع قرار دے کر بات کو ختم کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 
اگر پولیس کے پاس کسی شخص کے خلاف کوئی ثبوت ہے تو پولیس کو حق حاصل ہے کہ وہ قانون کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے اُس کو گرفتار کرے اور اُس کو عدالت میں پیش کرکے اُس کا ریمانڈ حاسل کرے اور اُس سے تفتیش کرے لیکن پولیس کو یہ حق کسی بھی قانون میں نہیں ہے کہ وہ کسی بھی شخص کو اُٹھا لے اور اُس کو تشدد کا نشانہ بنا کر ہلاک کردے۔ 
ایم کیو ایم اپنے کارکن وسیم دہلوی کی ماروائے عدالت ہلاکت پر سراپا احتجاج ہے اور ایم کیو ایم  نے اپنے اِن تحفظات کا اظہار کیا ہے کہ کراچی آپریشن کی آڑ میں ایم کیو ایم کو دیوار سے لگایا جارہا ہے اور کوئی نہ کوئی ایسا اقدام کیا جاتا ہے جس سے ایم کیو ایم کے تحفظات کی فہرست میں اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اگر آپریشن تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف کرنا ہی مقصود ہے تو پھر ایان علی کی منی لانڈرنگ کے پیچھے کن افراد کا ہاتھ ہے اُن کو بھی بے نقاب ہونا چاہیئے یا کراچی میں پکڑی جانے والی لانچوں میں رقم کن لوگوں کی تھی اور اُس میں کون لوگ ملوث ہیں اُن کے چہروں سے بھی پردہ اُٹھنا چاہیے، یا ابھی پکڑے جانے والے دو ارب روپے کی کیا کہانی ہے اور اس کے کردار کون سے عناصر ہیں ان کی نقاب کشائی بھی ضروری ہے،  بات اتنی سی ہے کہ دودھ کا دُھلا کوئی نہیں ہے ہر ایک کے پیچھے اپنی کہانی ہے کیا سب کے خلاف آپریشن ہورہا ہے تو پھر تو انصاف ہے اگر ایسا نہیں ہے تو پھر بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے؟
اِس پاکستان کو دیکھ کر افسوس ہوتا جسے قائداعظم نے اِس لئے بنایا تھا کہ یہ اسلام کا قلعہ ہوگا یہاں لوگوں کو انصاف ملے گا امن و سکون ہو گا لیکن انتہائی افسوس کہ ہم سب نے اپنے آپ کو تقسیم کردیا ہے ہم کیوں نہیں سوچتے کی ہمارا کردار ہی سب سے اہم ہے افسوس صد  افسوس الیکشن ہوتا ہے تو ہر طرف دھاندلی کا شور کیوں اُٹھتا ہے، ماڈل ٹائون میں چودہ انسانی جانوں کو خون میں نہلا دیا جاتا ہے کون قاتل ہیں کچھ علم نہیں ہوتا، کراچی میں روز لاشیں گرتی ہیں روز کتنی مائوں کے لختِ جگر اُن سے چھین لئے جاتے ہیں کسی کے دل میں درد نہیں اُٹھتا، ہر آدمی خود کو صحیح سمجھتا ہے اور دوسرے کو غلط کوئی کس کو اپنا دُکھڑا روئے کس کو کہے اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہم سب غلط راستے کی طرف جارہے ہیں ہم سب کو اپنے کردار کا جائزہ لینا ہوگا ورنہ ہم سب اسی طرح نفرتوں میں جیتے رہے اور قانون کے محافظ اسی طرح قانون کا گلا گھونٹتے رہے اور ملک میں جنگل کا قانون اسی طرح رہا تو معاف کیجئے ہم سب کا وجود مٹ  جائے گا اور ہم  سب خود ہی اپنے سب سے بڑے دشمن ہونگے کیونکہ جس شاخ پر ہم بیٹھے ہیں ہم سب اسی شاخ کو کاٹ رہے ہیں تو انجام بھی آپ سب کے سامنے ہی ہے





No comments:

Post a Comment