Wednesday, 17 June 2015

کراچی آگ اور خون

 آصف زرداری کا دھمکیوں سے لبریز بیان


پیپلز پارٹی کے کو چئیرمین آصف علی زرداری کارکنوں سے خطاب میں خوب گرجے اور برسے اور انہوں نے اپنے دل کی بھڑاس خوب نکالی۔ آصف علی زرداری کا فرمانا تھا کہ اگر انہیں تنگ کیا گیا تو وہ بھی پھر اپنی زبان کھولیں گے اور پورے پاکستان کو بند کردیں گے اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آصف علی زرداری کو کون تنگ کررہا ہے کیونکہ کراچی کا آپریشن تمام جماعتوں کی رضامندی سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف شروع کیا گیا تھا اور تمام جماعتیں اس بات پر باہم رضامند تھیں کہ کراچی کو دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر سے پاک کیا جائے گا۔ آپریشن شروع ہوا تو جرائم پیشہ عناصر پر ہاتھ ڈالا گیا لیکن جب جرائم پیشہ عناصر گرفتار ہوئے تو انتہائی سنسنی خیز انکشافات سامنے آنے شروع اور دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے قدموں کے نشانات بڑی اور طاقت ور شخصیات کی طرف نظر آنے لگے تو اِن شخصیات

کو اپنے قدموں کے نیچے سے زمین کھسکتی ہوئی محسوس ہونے لگی توجو جماعتیں اور شخصیات اِس آپریشن کی حمایت میں پیش پیش تھیں انہیں اب اس آپریشن میں عیب اور کیڑے نظر آنے لگے کیونکہ جب یہ شخصیات اپنے پیٹ سے کپڑا ہٹاتیں تھیں تو اِن کو اپنا پیٹ ہی ننگا نظر آتا تھا کیونکہ ان طاقت ور لوگوں نے جو فصل بوئی تھی وہ اب انہیں کاٹنی پڑرہی تھی یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کی ہر جماعت نے اپنے عسکری ونگز اس نظریے سے قائم کررکھے تھے کہ وہ ان کے ذریعے اپنی جماعتوں اور اپنے مخالفین کوکنٹرول کرنا چاہتے تھے لیکن یہ عسکری ونگنز خود اُن کے گلے پڑنے شروع ہوگئے اور اِن جماعتوں پر اعتدال پسندوں اور پڑھے لکھے افراد کی بجائے اُن انتہا پسند اور جرائم پیشہ عناصر کا قبضہ ہونا شروع ہوگیا اور کراچی شہر جو کہ منی پاکستان ہے اور پاکستان کے ہر رنگ نسل کے افراد کا پیٹ بھرتا ہے اور پاکستان کا معاشی حب ہے میں جرائم پیشہ عناصر اُن سیاسی جماعتوں کے کنٹرول سے باہر نکلتے چلے گئے اور کراچی جو 
روشنیوں کا شہر تھا اُس میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری ، مذہبی دہشت گردی، معاشی دہشت گردی ، لینڈ مافیا اور دیگر سیاسی اور سماجی برائیوں کا راج ہوگیا اور کراچی جو کبھی محبتوں اور روشنیوں کا شہر تھا اور اِس شہر کا دامن اتنا وسیع تھا جس نے مہاجر، سندھی، پنجابی، پٹھان، بلوچی، کشمیری، اسماعیلی، میمن، ہندو ، شیعہ، سنی ، بریلوی، اہلحدیث غرض ہر طبقے کے افراد کو اپنے اندر سمویا ہوا تھا اور سب کو اس شہر سے رزق مل رہا تھا کہ نامعلوم کس کی نظر لگ گئی کہ یہاں نفرتوں نے جنم لینا شروع کیا اور نفرتوں کی خلیج اتنی وسیع ہوئی کی سب اپنی پاکستانی شناخت کھو بیٹھے اور اور ہر ایک نے اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے لوگوں کی قوتِ برداشت ختم ہوتی چلی گئی اور ہر طبقہ اپنے حقوق کی بات کرنے لگا اگر حکومتیں کراچی میں انصاف کا بول بالا کرتیں اور کراچی کے لوگوں کے آنسو پونچھے جاتے تو شاید یہ مسائل جنم نہ لیتے  

کراچی میں نوکریوں اور اعلیٰ عہدوں پر میرٹ کو نظر انداز کرکے سیاسی مصلحتوں اور پارٹی سے وفاداری کو مدد نظر رکھتے ہوئے ایسے لوگوں کو فائز کیا جس سے ایک طبقے میں جوکہ معاشرے میں ایک پڑھا لکھا طبقہ تھا شدید محرومی کا احساس پیدا ہوا اس احساس محرومی نے بہت سے مسائل کو جنم دیا اور وہ کراچی جو ہر رنگ اور نسل کو بلا تفریق اپنے اندر سموئے ہوئے تھا نفرتوں کا شکار ہوکر آگ و خون کی نظر ہوگیا ہر طبقے نے اپنے حقوق کی جدوجہد کی بات کی لیکن کسی نے یہ نہ سوچا کہ حقوق کے ساتھ فرائض بھی ہوتے ہیں ان تمام نفرتوں کو انصاف فراہم کرکے ختم کرنے کی بجائے اور زیادہ بھڑکایا گیا اور ایک دوسرے سے لڑوایا گیا جس کے نتیجہ میں کراچی میں روز لاشیں گرتی رہیں اور مائیں اپنے جگر گوشوں سے محروم ہوتی رہیں، کراچی کے عوام دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، مذہبی دہشت گردی اور معاشی دہشت گردی کا شکار ہوتے رہے حالت یہاں تک پہنچ گئی کے مارنے والے کو یہ علم نہیں تھا کہ وہ کیوں مار رہا ہے اور نہ مرنے والے کو یہ علم تھا کہ اسے کس جرم میں مار دیا گیا مارا ماری کا یہ کھیل جاری رہا لوگ ایک دوسرے کو مارنے کے لئے استعمال ہوتے رہے اور اُن کے پیچھے ڈوریاں ہلانے والے محفوظ قہقے لگاتے اپنے بنک بیلنس اور اپنی جائیدادوں میں اضافے پر خوشیاں مناتے رہےاور جب کراچی کے حالات اپنی خرابیوں کی انتہاء کو پہنچ کر کر ایسے مقام پر پہنچ گئے اور سیاستدانوں کی نااہلیوں سے پھسلتے چلے گئے تو پھر ان ہی جماعتوں نے ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر پاکستان کے سیکورٹی کے اداروں کی طرف دیکھنا شروع گیا اور رینجر کو کراچی میں آپریشن کا ٹاسک دیا گیا رینجرز نے انتہائی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جرائم پیشہ عناصر پر ہاتھ ڈالنا شروع کیا تو ان جرائم پیشہ عناصر کے قدموں کے نشان اہم بڑی اور طاقت ور شخصیتوں کی طرف جاتے ہوئے پائے گئے جس پر ان طاقت ور شخصیات میں گھبراہٹ پیدا ہوئی کیونکہ رینجر جس مجرم پر ہاتھ ڈالتی تھی اس کا تعلق کسی بری شخصیت سے نکلتا تھا یہی وجہ ہے کہ جو آپریشن اتفاق رائے سے شروع ہوا تھا اس میں عیب اور کیڑے نظر آنے لگے افسوس ان سیاسی جماعتوں کے پاس ایک بہترین موقع تھا کہ وہ جرائم پیشہ عناصر سے نجات حاصل کرتی اور اپنی جماعتوں کو پاک صاف کرتیں لیکن کیا کیا جائے کہ اس حمام میں سب ننگے نظر آتے ہیں اور جو اینٹ اُٹھائی جاتی ہے اس کے نیچے سے کسی بڑی اور طاقت ور شخصیت کا نام نظر آتا ہے  اور ایسا نظر آتا ہے کہ
کس کے ہاتھ پر اپنا لہو تلاش کریں
سارے شہر نے پہن رکھے ہیں دستانے
اس وقت فوج کے پاس بہترین موقع ہے کی وہ پاکستان کو چوروں، ڈاکوئوں،  لٹیروں، بھتہ خوروں، معاشی دہشت گردوں اور دیگر جرائم پیشہ عناصر سے نجات دلائیں کیونکہ پاکستان کی عوام جنرل راحیل شریف اور فوج کی ضربِ عضب میں کامیابی کی وجہ سے انتہائی خوش ہے ایک بار فوج دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کرلے اور اگر کوئی فوج میں بھی کرپٹ شخص ہے تو اسے بھی احتساب کے کٹہرے میں کھڑا کردے تاکہ کسی کو کوئی اعتراض نہ ہو پوری قوم آپ کے ساتھ ہے تمام سیاسی جماعتیں اپنے مل کر بیٹھیں اور اپنے اندر سے کرپٹ عناصر کا خاتمہ کریں اور ہر شخص اپنا خود احتساب کرے اور سوچے کہ وہ کیا کررہا ہے اور اس ملک کو جو اس کا وطن ہے کیوں خود اپنے ہاتھوں سے تباہ کررہا ہے اگر کوئی غلط کررہا ہے تو اسے چاہیئے کہ وہ صدق دل سے اپنے اللہ کے حضور توبہ کرے کیونکہ توبہ کا دروازہ ہر شخص کے لئے کھلا ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ پھر اللہ کا غضب ہمارے ان غلط اعمال پر بھڑکے اور وہ اپنی تلوار نازل کرے اور ہر مجرم کا سر قلم کردے لوگو! ڈور اس وقت سے کیونکہ تم کو کثرت کی خواہش نے غفلت میں رکھا یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں تم جلد جان لو گے پھر بھی کوئی نہیں تم جلد جان لو گے کاش کوئی ہے جو سوچے اور سمجھے



سید محمد تحسین عابدی


No comments:

Post a Comment