Monday 1 June 2015

بلاول بھٹو کی پاکستان آمد

بلاول بھٹو کی پاکستان آمد

بلاول بھٹو اپنے پلان کے تحت پاکستان آئے ہیں

دبئی میں زرداری فیملی کی خاندانی میٹنگ کے نتیجے میں بلاول بھٹو زرداری پاکستان واپس آنے پر تیار ہوئے اور وہ بلآخر پاکستان واہس آگئے آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان گزشتہ کچھ عرصہ سے پیدا ہونے والے اختلافات کو ختم کرانے میں بلاول بھٹو کی پھوپھی فریال تالپور  نے اہم ترین کردار ادا کیا جس کے بعد بظاہر آصف زرداری اور بلاول بھٹو ایک دوسرے سے راضی ہوگئے اور بلاول بھٹو زرداری نے چارج سنبھال لیا اور کام کا آغاز کردیا اس سے پہلے پیپلز پارٹی آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی پرزور تردید کرتی رہی تھی لیکن سیاسی مبصرین کے خیال میں باپ بیٹے میں شدید اختلافات موجود تھے اور بلاول بھٹو زرداری آصف زرداری سے اختلاف کی وجہ سے بیرون ملک چلے گئے تھے اور اس کی اصل وجہ یہ تھی کہ بلاول بھٹو زرداری پیپلز پارٹی کی عوام میں تیزی سے گرتی ہوئی مقبولیت کو واپس لانے کے لئے جد و جہد کرنا چاہتے تھے اور ان کی تقاریر بھی اس بعد کی عکاسی کرتی نظر آتی ہیں اس سلسلے میں انہوں نے پنجاب کے کچھ علاقوں کا دورہ بھی کیا تھا 
اور انہیں پنجاب سےپذیرائی بھی ملی تھی لیکن آصف زرداری نواز شریف کی باری کی وجہ سے یا اپنے اوپر کرپشن کے الزامات اور کیسوں کی وجہ سے نواز شریف سے زیادہ لڑائی جھگڑے کا رسک نہیں لینا چاہتے تھے کیونکہ ان پر قائم صدارت کی چھتری بھی اتر چکی تھی ۔ دوسری طرف انہیں سندھ میں اپنی پیپلز پارٹی کی حکومت چلانے کے لئے ایم کیو ایم کی حمایت کی ضرورت بھی تھی جس کی وجہ سے آصف زرداری ٹھنڈا کرکے کھائو کی پالیسی پر عمل پیرا تھے اور چاہتے تھے کہ بلاول بھٹو بھی ان کی اس پالیسی کے ساتھ چلیں لیکن دوسری طرف بلاول بھٹو جوان خون ہیں اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اُن کے والد کی اس پالیسی کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی مقبولیت کا گراف روز بہ روز گرتا چلا جا رہا ہے اور بلاول بھٹو زرداری کے نزدیک پیپلز پارٹی آصف زرداری کی اس ٹھنڈی پالیسی کی وجہ سے پنجاب سے تقریبا آئوٹ ہو چکی تھی اس لئے بلاول بھٹو زرداری نے ایسی تقاریر کیں جو آصف زرداری کی ٹھنڈی پالیسی سے متصادم تھیں جس کی وجہ سے باپ بیٹے میں اختلاف کی خلیج وسیع سے وسیع تر ہوتی چلی گئی اور اس کے نتیجہ میں بلاول بھٹو  زرداری ناراض ہو کر بیرون ملک چلے گئے
بلاول بھٹو زرداری کے بیرون ملک جانے کے بعد پرنٹ میڈیا اور میڈیا پر آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان اختلافات کی خبریں تیزی سے گردش کرنے لگیں بلاول بھٹو زرداری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان ہیں اُن کا اپنا ذہن اور اپنی سوچ بھی ہے وہ آنکھیں رکھتے ہیں اور کان بھی رکھتے ہیں ظاہر ہے اُن کی انکھوں نے بھی کچھ مشاہدہ کیا ہے اور کانوں نے بھی بہت کچھ سنا ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ اُن کی سوچ پر پہرے بٹھائے جائیں اور نہ ہی وہ یہ چاہتے ہیں کہ ساری عمر وہ اپنے والد آصف علی زرداری کی انگلی پکڑ کر چلیں اس لئے انہیں پاکستان سے باہر رہ کر سکون کےلمحات میں کافی کچھ سوچنے اور سمجھنے کا موقع ملا انہیں بھی اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے بے نقاب نہ کئے جانے کا درد ہوگا کیونکہ پیپلز پارٹی کے کارکن بی بی شہید کے  قاتلوں کو بے نقاب کرنے کا مطالبہ شدت سے کرتے رہے ہیں معلوم نہیں کن نامعلوم وجوہات کی بنا پر بے نظیر بھٹو کے قتل کے کیس کو سرد خانے کی نظر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے اس ساری صورتحال میں اچانک یہ خبریں  آنی شروع ہوئیں کی بلاول بھٹو زرداری نے مرتضی بھٹو جونیر اور فاطمہ بھٹو سے ملاقات کی ہے جس سے آصف زرداری اور  بلاول بھٹو زرداری میں اختلاف کی خلیج کے وسیع ہونے کی خبریں تیزی سے پھیلنے لگیں لیکن آصف زرداری نے یہ بات کہ کر کہ باپ بیٹے میں کیا اختلاف ہوسکتا ہے اور بلاول بھٹو زرداری ابھی سیاست میں مچیورڈ نہیں ہوئے ہیں اس لئے اُن کی ٹریننگ کی جارہی ہے تاکہ وہ سیاست کے صحیح دائو پیچ سمجھ کر واپس آئیں گے اور پارٹی کی بہتر انداز میں خدمت کرسکیں گے بات کو سنبھالنے کی ناکام کوشش کی۔ پارٹی کے کو چیئرمین کے پارٹی کے چیئرمین کے اس قسم کے ریماکس لوگوں کو ہضم نہیں ہوسکے تو ظاہر ہے بلاول بھٹو زرداری  نے ان ریمارکس کو کس طرح لیا ہوگا یا اُن کے دل پر کیا گزری ہوگی یہ تو بلاول بھٹو زرداری کا دل ہی جانتا ہے۔ادھر سندھ میں پیپلز پارٹی کی گرفت روز بہ روز کمزور ہوتی چلی جا رہی تھی، سندھ کو امن و امان، ٹارگٹ کلنگ، دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور دیگر مسائل کا سامنا شدت سے سے تھا کہ اسماعیلی برادری کی بس پر ہونے والے دہشت گردی کے حملے نے جس میں 45 کے قریب قیمتی جانیں چلی گئیں جس سے سندھ حکومت پر سوالات تیزی کے ساتھ اُٹھنے لگے کہ پانی کا بحران پیدا کیا گیا یا پانی کے بحران نے جنم لیا اور سندھ پر پیپلز پارٹی کی گرفت نہ ہونے کے برابر ہوگئی تو پیپلز پارٹی کے کرتا دھرتائوں کو ایک بار پھر بلاول بھٹو زرداری کی یاد ستائی اور ان مچیورڈ بلاول بھٹو ایک دم سیاسی طور پر بالغ نظر آنے لگے اور بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری زرداری میں اختلاف ختم کرانے کی ذمہ داری بلاول بھٹو زرداری کی پھوپھی فریال تالپور کو سونپی گئی اور اس سلسلے میں دبئی میں ایک فیملی میٹنگ ہوئی جس میں آصف زرداری اور بلاول بھٹو زرداری میں بظاہر اختلافات ختم ہوگئے اور بلاول بھٹو زرداری وطن واپس آگئے اور واپس بلاول ہائوس آکر چیئرمین شپ کا چارج سنبھال لیا لیکن سیاسی مبصرین کی رائے یہ نظر آتی ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اور آصف زرداری میں بظاہر اختلاف ختم ہوگئے ہیں لیکن اُن میں کھٹ پٹ جاری ہے گی کیونکہ بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں اور وہ پیپلز پارٹی کو دوبارہ عوام کی مقبول ترین جماعت بنانا چاہتے ہیں اور ان کا ثبوت انہوں نے اپنی آمد کے فورا بعد دیا ہے کہ انہوں نے خیبر پختونخواہ میں پیپلز پارٹی کی کارکردگی پر رپورٹ طلب کرلی اور کراچی میں پانی کے مسئلے پر اہم اجلاس طلب کرلیا ہے اس کے بعد بلاول 
بھٹو زرداری کا رخ پنجاب کی طرف ہوگا کیونکہ وہاں بلدیاتی انتخابات کو میدان لگنے والا ہے.اس بار ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری اپنی پلاننگ کے تحت واپس آئے ہیں اور انہوں نے دبئی میں ہونے والی فیملی میٹنگ میں اپنے مطالبات کو منوایا ہے اُن پر آصف زرداری کی طرح کرپشن کے الزامات بھی نہیں ہیں اور اُن کے ساتھ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کا نام جڑا ہوا ہے وہ نوجوان ہیں اگر انہوں نے سمجھداری سے کام لیا اور آصٍف زرداری پر لگنے والے کرپشن کے الزامات  سے پیچھا چھڑانے میں کامیاب ہوگئے تو وہ پیپلز پارٹی میں ایک نئی روح پھونکنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں اور پیلپز پارٹی کا ورکر جو اس وقت خاص طور پر پنجاب میں انتہائی مایوسی کا شکار ہے دوبارہ اس میں حرارت کی لہر دوڑا سکتے ہیں اسکے لئے صرف انہیں خوشامد پسند اور کرپٹ عناصر سے دُوری اختیار کرنا ہوگی اور ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کے نظریات کو اگے لے کر چلنا ہوگا یہ تو اب   آنے والا وقت ہی ثابت کرے گا کے وہ اپنی کوششوں میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں کیونکہ انہیں پارٹی کے اندر ہونے والی سازشوں پر بھی گہری نظر رکھنا ہوگی اور جوش و جذبہ کے ساتھ ہوش سے بھی کام لینا ہوگا۔ اب یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا کہ وہ اپنے والد آصف علی زرداری کی انگلی پکڑ کر چلنے کی پالیسی اپناتے ہیں یا اپنی سوچ اور اپنے نظریات کی روشنی میں سیاست کے میدان میں آگے بڑھتے ہیں





                                                           سید محمد تحسین عابدی

No comments:

Post a Comment