Saturday 20 June 2015

سیاسی افطار پارٹی

 کراچی کے بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال

پیپلز پارٹی کے کو چیئرمین آصف زرداری کے  گرما گرم اور فوج کو للکارنے والے بیان کے بعد پیپلز پارٹی کی طرف سے وضاحتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے شاید آصف زرداری کا خیال تھا کہ وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف اُن کے ساتھ کھڑے ہونگے اور آصف زرداری کو یہ توقع اس لئے زیادہ تھی کہ عمران خان اور علامہ ڈاکڑ طاہر القادری کر دھرنوں کے موقع پر آصف زرداری اُن کے ساتھ کھڑے ہوگئے تھے اور نواز شریف کی گرتی ہوئی حکومت کو سہارا دیا تھا۔ لیکن شاید نواز شریف کو وہ وقت بھی اچھی طرح یاد تھا کہ جب آصف زرداری نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت کے خاتمے  کے لئے نواز شریف سے مدد مانگی تھی تو نواز شریف نے افتخار چوہدری کی بحالی کی شرط کے ساتھ آصف زرداری کا ساتھ دینا منظور کیا تھا لیکن پرویز مشرف کے استفٰی کے بعد آصف زرداری اپنے اس وعدے کو سیاسی مصلحت کی وجہ سے نظر انداز کر گئے تھے اور اُس وقت آصف زرداری کا یہ فرمانا تھا کہ افتخار چوہدری کی بحالی کا معاہدہ کوئی قرآن اور حدیث تو نہیں تھا قدرت کا یہ مکافات عمل تھا کہ جب نواز شریف دھرنوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہوئے تو نواز شریف نے آصف زرداری سے مدد مانگی اور آصف زرداری نے نواز شریف کی مدد اِس توقع پر کی کہ جب اُن پر مشکل وقت آئے گا تو نواز شریف اُن کا ساتھ دیں گے لیکن سیاست کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں جب دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے قدموں کے نشانات بڑی سیاسی جماعتوں کی طرف جانے لگے تو اِس صورتحال میں آصف زرداری کا وہ آگ سے بھرا ہوا بیان سامنے آیا جس کا ہدف فوج اور سیکورٹی کے ادراے تھے جس سے ایک طوفان برپا ہوگیا یہ بیان ظاہر ہے پاکستان کے عوام کے لئے ناقابل قبول تھا اور کیونکہ پاکستان کی فوج جو آپریشن ضربِ عضب میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اس آپریشن کو اپنے منطقی انجام کی طرف لے جارہی تھی اور کراچی میں بھی رینجرز انتہائی کامیابی سے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ کررہی تھی لیکن کراچی آپریشن میں جب دہشت گردوں اور ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیا تو گرفتار ہونے والوں نے جو انکشافات کئے وہ انتہائی سنسنی خیز اور حیران کن تھے کہ کراچی سے گرفتار ہونے والے مجرموں کے پیچھے انتہائی طاقت ور شخصیات تھیں لیکن سیکورٹی کے اداروں نے فیصلہ کیا کہ مجرم کوئی بھی ہو یا جتنا بھی طاقت ور ہو اسے قانون کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے گا ابھی رینجرز اہم مجرموں پر ہاتھ ڈال رہی تھی کہ آصف زرداری کا یہ آگ بھڑکانے والا بیان سامنے آیا جس نے صورت حال کو ایک دم کشیدہ کردیا اِدھر جب آصف زرداری نے عوام میں اپنے بیان کا شدید ردعمل دیکھا تو انہوں نے وزیراعظم  نواز شریف سے ملاقات کی کوشش کی کہ وہ اس موقع پر اُن کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن نواز شریف کو بھی افتخار چوہدری کی بحالی کے مسئلے پر آصف زرداری کا حساب چکانا تھا اور انہوں نے سیاسی خودکشی کرنا مناسب نہ سمجھتے ہوئے آصف زرداری سے ملاقات سے انکار کردیا تھا کیونکہ چوہدری نثار نے آصف زرداری کے بیان کی شدید مذمت کرتے ہوئے ان کے بیان کو نامناسب اور فوج کے خلاف بیان قرار دیا تھا اس لئے نواز شریف  جو کہ آصف زرداری کے بیان کی وجہ سے ایک کڑے امتحان سے دوچار تھے آصف زرداری سے ملاقات سے انکار کا فیصلہ کر بیٹھے اور انہوں نے آصف زرداری سے اپنا پچھلا حساب بھی چکا دیا اسی کا نام سیاست ہے اور اسی لئے کہتے ہیں سیاست کے کھیل نرالے ہوتے ہیں اور سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔ 

جب عوام اور میڈیا میں آصف زرداری کے بیان پر شدید تنقید ہوئی تو پیپلز پارٹی کے حلقوں کو صورتحال کی سنگینی کا احساس ہوا اور انہوں نے ڈیمج کنٹرول کےلئے پیپلز پارٹی کی طرف سے قمرالزماں کائرہ اور شریں رحمان کو منتخب کیا گیا اور پارٹی کے ان اعتدال پسند رہنمائوں نے اپنی طرف سے وضاحت کی کوشش کی لیکن اب پاکستان کی عوام صحیح اور غلط کے درمیان تمیز کرنا سیکھ گئی ہے اور میڈیا نے عوام کو آگاہ کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے عوام میں قمرالزماں کائرہ اور شیریں رحمان کی وضاحت کو پذیرائی نہ ملی جس پر آصف زرداری نے اپنے اتحادیوں کو اکٹھا کرنے کے لئے ایک سیاسی افطار پارٹی کا یکم رمضان کو انعقاد کیا جس میں ایم کیوایم کے وفد کے علاوہ چوہدری شجاعت، مولانا فضل الرحمان  اور اے این پی نے شرکت کی تاکہ اپنی طاقت کا مظاہرہ کیا جاسکے لیکن اس افطار پارٹی میں چوہدری شجاعت نے مٹی پائو کے مقولے پر آصف زرداری کو مشورہ دیا کہ آصف زرداری اپنا بیان واپس لے لیں شاید چوہدری شجاعت اور مولانا فضل الراحمان کی آمد شاید صلح صفائی کا راستہ ہموار کرنے کے لئے تھی افطار پارٹی کے بعد شیری رحمان اور قمرالزماں کائرہ نے ایک بار پھر وضاحتیں پیش کیں اور شریں رحمان نے جنرل راحیل شریف اور فوج کی تعریفوں کے پل باندھے لیکن انہوں نے آصف زرداری کے بیان واپس لینے کو خارج از امکان قرار دیا۔ 

اس افطار پارٹی میں چوہدی شجاعت اور مولانا فضل الراحمان کی آمد کو اہم قرار دیا جارہا ہے بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وہ صورتحال کی کشیدگی کو کم کرنے کے لئے تشریف لائے تھے یا ہوسکتا ہے کہ ان کےذریعے پیغام رسانی کا سلسلہ قائم ہو اور تنائو کی کیفیت کم ہو کیونکہ ایک منظر نامہ تو پردہ سکرین پر چل رہا ہوتا ہے لیکن ایک اور منظر پردہ سکرین کے پیچھے بھی چل رہا ہوتا ہے اور پردہ سکرین کے پیچھے بہت سے جوڑ توڑ اور فیصلے ہورہے ہوتے ہیں جو بہت اہم ہوتے ہیں۔ یہ سب تو اپنی جگہ ہے لیکن عوام اب دہشت گردی، کرپشن ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، مذہبی دہشت گردی، منی لانڈرنگ اور معاشی دہشت گردی سے تنگ آچکے ہیں
عوام اب فیصلہ چاہتے ہیں کی تمام مجرموں اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ ہو خواہ وہ سیاسی شخصیات ہوں، بیوروکریٹ ہوں، یا سیکورٹی کے اداروں کے افراد ہوں یا اُن کا تعلق فوج سے ہو یا عدلیہ سے ہو ایک بار کڑا احتساب ہو اور پاکستان سے مجرموں اور کرپٹ عناصر کا خاتمہ ہو اس کے علاوہ ہم سب کو اپنے اعمال کا رات کی تنہائی میں جائزہ لینا ہوگا کہ ہم سب خود کیا کررہے ہیں انتہائی معذرت کے ساتھ کیا ہم سب جھوٹ نہیں، بولتے، کیا ہم سب سفارش نہیں کرواتے، کیا ہم سب الیکشن میں دھاندلی نہیں کرتے، کیا ہم سب رشوت لینے اور دینے پر مجبور نہیں ہیں خدارا نظام کو نہیں خود کو بدلو تم خود نیک ہوگے تو تمھارے حکمران بھی نیک ہونگے سوچو رمضان میں جب شیطان کا داخلہ زمین پر بند کردیا جاتا ہے تو چیزیں کون مہنگی کرتا ہے ذرا سوچو ایک دوسرے پر الزام دینے کی بجائے خود کو ایماندار بنائو تو یہ دنیا خود ٹھیک ہوجائے گی افسوس یہ سب سے کڑوا سچ ہے کہ ہم خود برے ہیں اسی وجہ سے حکمران بھی برے ہیں کیا کریں اس حمام میں تو سب ننگے ہیں افسوس صد افسوس




سید محمد تحسین عابدی

No comments:

Post a Comment